آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم، عملدرآمد  شروع کر دیا، معاہدہ میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں رہی: وزیراعظم 

آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم، عملدرآمد  شروع کر دیا، معاہدہ میں تاخیر کی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


   اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) وفاقی کابینہ نے نئے مالی سال کیلئے 14ہزار 6ارب روپے مالیت کے بجٹ کی منظوری دیدی،وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کا بینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا آئی ایم ایف کیساتھ معاہدے کیلئے تمام شرائط تسلیم کر لی ہیں، جب ذمہ داری سنبھالی تو سب سے پہلا امتحان آئی ایم ایف سے معاہدہ تھا، گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی دھجیاں بکھیریں، پھر بڑی مشکل سے حکومت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف معاملات طے گئے، گزشتہ سال جو سیلاب آیا تباہ کن معیشت کو بے پنا ہ نقصان پہنچا، کابینہ کے ممبران نے بحالی اور ریلیف کیلئے دن رات کوششیں کیں، وفاق کے علاوہ صوبوں کے بحالی پروگراموں کیلئے اربوں روپے خرچ کئے، وفاق نے 100 ارب روپے بحالی پر خرچ کئے اور بیرون ممالک سے امداد آئی، سیلاب سے تقریباً 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، یوکرین کرائسز کے نتیجے میں عالمی منڈی میں اشیاء کی قیمتیں بڑھیں، اب ہم دوبارہ آئی ایم ایف کیساتھ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں، آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کرنے سمیت ان پر عملدرآمد بھی کرلیا ہے، مگرسٹاف لیول ایگریمنٹ سائن نہیں ہوا، اب یہ معاملہ آئی ایم ایف بورڈ میں جائیگا،آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے تقریباً ایک گھنٹہ ٹیلیفون پر بات ہوئی، ایم ڈی آئی ایم ایف نے ایک دو مزید شرائط بتائیں وہ بھی پوری کرد یں، اب کوئی ایسی چیز باقی نہیں جو آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ بنے، جو مسائل آپ نے رکھے اس سے عام آدمی پر مہنگائی کا بے پناہ بوجھ پڑا ہے، دنیا بھر میں ہر جگہ مہنگائی کا راج ہے، پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی تو گزشتہ حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیا تھا، آئی ایم ایف شرائط میں جو گیپ تھا اس میں 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 3 ارب ڈالر متحدہ عرب امارات نے دیا، آئی ایم ایف کے حوالے سے سعودی عرب اور یو اے ای نے ہمارا ہاتھ تھاما، ہمارے با اعتماد دوست چین نے بھرپور مدد کی، گزشتہ تین ماہ میں چینی حکومت کی سپورٹ انتہائی مددگار ثابت ہوئی، اقتصادی ترقی جس رفتار پر ہونی چاہیے تھی نہیں ہے، ان چیلنجز کی وجہ سے اقتصادی ترقی سست روی کا شکار ہوئی، اللہ کا شکر ہے کرنٹ خسارے کے معاملے میں بہتری آئی ہے، ہمارا کرنٹ خسارہ  3.3بلین ڈالر رہ گیا ہے، ہمارے فارن ایکسچینج کے وسائل پر بہت بوجھ ہے، ہماری ترجیح بر آمدات ہیں جس کی وجہ سے ایکٹیو یٹی میں کمی آئی، ٹھوس اقدامات کریں تو زرعی شعبے سے اچھے نتائج مل سکتے ہیں، گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں ایکسپورٹرز سے کئی میٹنگز کیں، زرعی اجناس پر مزیدریلیف لائیں گے تو مزید خوشحالی آئیگی، زرعی شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے تو زیادہ فائدہ ہو گا، آئی ٹی اور ایکسپورٹ شعبوں میں منسٹری نے معاونت کی ہے، دنیا میں معیشت کا پہیہ سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے، کسی ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو معیشت ترقی تو دور کی بات ہے،ملک میں سیاسی طوفان آیا اس نے معیشت کا پہیہ جام کر دیا ہے،ملک میں سرمایہ کاری رک گئی، صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا، ہم سب سیاسی استحکام لانے کیلئے یکسو ہیں، غریب آدمی کی تنخواہ اور پنشن کا خصوصی خیال کرنا ہو گا، ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ غریب کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ کریں، قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ پر بلوچستان عوامی پارٹی کے تحفظات دور کردیئے جس کے بعد بی اے پی نے بجٹ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف سے بلوچستان عوامی پارٹی کے وفد نے چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی قیادت میں ملاقات کی،وزیرِ اعظم نے بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں اور مسائل کے حل کے حوالے سے بلوچستان عوامی پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے کمیٹی قائم کر دی۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، خالد حسین مگسی، مولانا غفور حیدری، آغا حسن بلوچ، اسحاق ڈار، احسن اقبال، ڈاکٹر مصدق ملک، اعظم نذیر تارڑ اور منظور کاکڑ کمیٹی کے رکن ہونگے، کمیٹی آئندہ ہفتے تفصیلی مشاورت کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے گی۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا  بلوچستان عوامی پارٹی حکومت کی اہم اتحادی ہے جس نے حکومت کے ہر فیصلے میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے مشروط ہے۔ بلوچستان کی ترقی، بلوچستا ن عوامی پارٹی سے مشاورت اور ان کی رائے کے بغیر ممکن نہیں، چیئرمین سینیٹ نے بلوچستان کی ترقی کے لیے وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی اور خصوصی اقدامات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ملاقات میں وفاقی وزیرِ برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، رکن قومی اسمبلی و پارلیمانی لیڈر بلوچستان عوامی پارٹی خالد حسین مگسی اور سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے بھی شرکت کی۔قبل ازیں نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بریفنگ دی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونیوالا تھا،خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے،اگست 2018 میں سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47 ویں نمبر پر آگیا۔ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کیلئے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیرخزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کرکے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
وزیر اعظم

مزید :

صفحہ اول -