سمندر انسانی غفلت کا شکار
پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یومِ بحر(سمندروں کا عالمی دن) منایا گیا، یہ دن ہر سال ایک نئے عنوان کے تحت منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس کا موضوع ”ہماری بقاء کیلئے ناگزیر سمندروں کا پائیدار تحفظ“ تھا۔ سمندر کسی عجوبے سے کم نہیں اور یہ انسانی زندگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اِس لیے ضروری ہے کہ اِس کی بقاء کو یقینی بنایا جائے اورعام آدمی کو سمندروں اور ماحولیات کے شعبوں کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔اس حوالے سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز نے سمندروں کی حفاظت کے طریقوں اور ذرائع کو اجاگر کرنے کے لیے ایک روزہ انتہائی بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا، جس میں پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کہا کہ صاف ستھرے کرہء ارض کے لئے شفاف سمندر ناگزیر ہیں۔ اْنہوں نے مختلف پائیدار اقدامات کے ذریعے سمندری ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے پاک بحریہ کے عزم کا اعادہ کیا، جس میں تیل کے اخراج کو روکنے، آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کو نافذ کرنے اور مچھلی پکڑنے کے تباہ کن طریقوں پر پابندی شامل ہیں۔ اِنہوں نے کہا کہ زمین کے 70 فیصد سے زائد حصے پر محیط سمندر آکسیجن کا ایک اہم ذریعہ ہیں، آب و ہوا کا ایک ریگولیٹر اور حیاتیاتی تنوع کے بے حد معاون ہیں، یہ سب عالمی معاش کے لیے ضروری ہیں، آج سمندروں کو آلودگی، زیادہ ماہی گیری اور موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک حقیقت جسے فرانس کے شہر نیس میں منعقد جاری اقوامِ متحدہ کی چار روزہ بحری کانفرنس اجاگر کر رہی ہے، یہ نہ صرف سمندروں کے تحفظ اور پائیدار استعمال کے لیے اقدامات کو تیز کرنے پر توجہ مرکوز بلکہ پائیدار ترقی کے اہداف کے نفاذ میں مدد کے طریقوں اور ذرائع کی نشاندہی بھی کرے گی۔ اْنہوں نے پاکستان کی طویل ساحلی پٹی اور بھرپور سمندری وسائل کو قومی امانت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حیاتیاتی تنوع کا یہ اہم خزانہ تیزی سے زوال کا شکار ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے فوری اور مضبوط مداخلت کا مطالبہ کرتا ہے تاہم ملک کے سمندری شعبے کے پرنسپل کسٹوڈین کی حیثیت سے پاک بحریہ اس اہم ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہے، اِس لیے مینگروو کے 80 لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے ہیں، یہ ساحلی لچک کو مضبوط بنانے اور حیاتیاتی تنوع کو بڑھانے کے لیے پاک بحریہ کے عزم کو واضح کرتا ہے، یہی نہیں بلکہ پاک بحریہ اپنے سمندروں کو ماحولیاتی نقصان سے بچانے کے لیے توجہ، آپریشنوں اور ہم آہنگی کی مشقوں کے ذریعے سمندری آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ماحولیات کی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے اْن کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ بھی آگاہی مہم اور اہم شراکت داری کے ذریعے ماحولیاتی اقدار کو فروغ دے رہی ہے، سمندروں کا عالمی دن مطالبہ کرتا ہے کہ اضطراری اعتراف سے آگے بڑھا جائے اور نتیجہ پر مبنی اجتماعی اقدامات کریں۔ اْنہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مطالبہ کیا کہ وہ پاک بحریہ کے ساتھ ہاتھ ملائیں اور اپنے سمندروں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے محفوظ اور پائیدار طرز عمل اپنائیں، سب مل جْل کر نہ صرف سمندروں کی بے پناہ نعمتوں سے استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ اْن کی پائیدار عظمت کو محفوظ رکھتے ہوئے اِنہیں آئندہ نسلوں کے حوالے کر سکتے ہیں۔
سمندروں کا عالمی دن یہ یاد دلاتا ہے کہ سمندر ہمارے سیارے کے پھیپھڑوں کے کردار کے علاوہ خوراک اور ادویات کا ایک بڑا ذریعہ اور حیاتیات کا ایک اہم حصہ ہیں، اِس دن کا مقصد عوام کو سمندر پر انسانی اعمال کے اثرات سے آگاہ کرنا، سمندر کے لیے شہریوں کی عالمی تحریک کو فروغ دینا اور دنیا کے سمندروں کے پائیدار انتظام کے لیے دنیا کی آبادی کو متحرک اور متحد کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق سمندر کرہ ارض کے 70 فیصد سے زیادہ حصے پر محیط ہے، یہ نہ صرف انسانیت اور زمین پر موجود ہر دوسرے جاندار کے رزق کا سہارا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہر دوسری سانس کے لیے آکسیجن فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں یعنی یہ کرہ ارض کی کم از کم 50 فی صدآکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ سمندر دنیا بھر کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کے لیے پروٹین کا بنیادی ذریعہ ہیں اور دنیا کے 80 فیصد حیاتیاتی تنوع کی میزبانی کرتے ہیں، اِس لیے یہ انسانی وجود کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک سمندر پر مبنی صنعتوں سے 40 ملین افراد کو روزگار ملے گا۔ اِس سب کے باوجود سمندر اب سہارے کے محتاج ہیں کیونکہ اِن میں 90 فیصد بڑی مچھلیوں کی آبادی اور لگ بھگ 50 فیصد مرجان کی چٹانیں تباہ ہو چکی ہیں، سمندر میں ایک نیا توازن پیدا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جو اْس کے فضل کو مزید ختم نہ کرے بلکہ اْس کی رونق کو بحال کرے اور اس میں نئی زندگی لائے۔ یہ دن انسانوں کو سمندر کے ساتھ گہرے تعلق کی یاد دلاتا ہے اور تجسس، دانشمندی اور اجتماعی بہبود کے عزم کے ذریعے اِس کے تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ رواں سال اِس نئے ویژن کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے کہ سمندر انسانوں کو اِس کی خوبصورتی اور اِس کا راز محفوظ بنانے کے علاوہ اْن کی زندگیوں اور کرہ ارض سے جْڑے اِس کے اہم کردار پر توجہ کی استدعا کرتا ہے۔
فرانس میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی چار روزہ سمندری کانفرنس میں سمندروں، اِن کے وسائل کا استعمال اور اْن کے تحفظ کا متوازن حل تلاش کیا جائے گا، یہ کانفرنس حکومتوں، تنظیموں، مالیاتی اداروں، اکیڈمی، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر شراکت داری قائم کرے گی، حل کا اشتراک کرے گی اور بین حکومتی”نائس اوشین ایکشن پلان“ کو اپنائے گی جو کہ رضاکارانہ وعدوں کے ساتھ ایک مختصر اور عمل پر مبنی اعلامیہ ہے۔ اْمید کی جانی چاہئے کہ حکومتیں کانفرنس کے طے کردہ تمام تراہداف کا حصول ہر قیمت پر یقینی بنائیں گی کیونکہ انسانی زندگی کے لیے 50 فیصد آکسیجن کے منبع کو محفوظ رکھنا ضروری ہے، اِس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا،یہ انسانی بقاء کے لیے ناگزیر ہے، اِس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا عفریت پہلے ہی زمین کو اپنی لپٹ میں لے چکا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب، بے وقت کی بارشوں اور طوفان کا سامنا ہے، گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہر سال منعقد ہونے والی COP اور دیگر ہزاروں کانفرنسیں اْن ممالک کے غیر سنجیدہ رویّے کی نذر ہو جاتی ہیں جو ان تبدیلیوں کے اصل ذمے دار ہیں۔ نتیجتاً انسانی زندگی کو درپیش خطرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں،اگر اب بھی سمندروں جیسے اہم ماحولیاتی نظام پر توجہ نہ دی گئی تو تباہی کا عمل مزید تیز ہو جائے گا۔ انسانیت کی بقا اسی میں ہے کہ اس عمل کو سست کیا جائے اور سنجیدہ، دیرپا اقدامات کیے جائیں۔