میڈیا کی طاقت اور ذمہ داری
علمی ذوق سے نا بلد معاشرے، جہاں بہت کم لوگ تصنیف و تالیف کا شغف رکھتے ہیں ،جہاں کتب بینی کی روایت دم توڑ رہی ہے،جہاں کتابیں مواد کی بجائے کاغذ کے وزن کی بنا پر تول کر ردی میں بکتی ہیں اور کتابوں کی دکانوں کی جگہ ویڈیو اور برگر کے کاﺅنٹرز کھل رہے ہیں ، کسی بھی پاکستانی مصنف کی طرف سے تازہ تخلیق کو مارکیٹ میں لانا دل کو تقویت دیتا ہے کہ ابھی اس معاشرے میں علمی و ادبی ذوق کی رمق پائی جاتی ہے اور یہاں کتابیں پڑھنے کی روایت زندہ ہے۔ سنگ ِ میل پبلشرز کی شائع کردہ یاسمین آفتاب علی کی تازہ کتاب....A Comparative Analysis of Media and Media Laws in Pakistan ....در اصل اس موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے، کیونکہ مصنفہ نے اُس موضوع پر قلم اٹھایا ہے جو اس معاشرے، جہاں نہ صرف میڈیا کے حوالے سے بنائے گئے قوانین، بلکہ کسی بھی قانون کی پیروی نہ کرنے کی عملی روایت نہیںہے، کے لئے نہایت موزوں اور بر محل ہے۔ مصنفہ نے ، جو ایک مشہور وکیل اور ابلاغیات کی ماہرہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کثرت سے لکھتی ہیں، بہت مہارت کے ساتھ قانون کے میدان میں اپنے تجربے اور ابلاغیات کے علم کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے مطبوعہ ادب کو ایک جدت سے آشنا کیا ہے۔
مذکورہ کتاب غالباً اپنی طر ز کی پہلی تصنیف ہے جو ہمارے ملک میں میڈیا کے حوالے سے تمام معروضات کا وسیع تر آئینی فریم ورک میں جائزہ لیتے ہوئے عام شہریوں کو میڈیا کے کردار کے بارے میں آگاہی بھی دیتی ہے اور صحافی حضرات کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض، جیسا کہ معلومات کی فراہمی ، خبر کی حرمت اور رائے عامہ کی تشکیل ، کے بارے میں یاد دلاتی ہے ۔ یاسمین آفتاب پاکستان میں میڈیا کے ارتقائی عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن پہلو و¿ں اور رجحانات کی نشاندہی بھی کرتی ہیں، جہاں میڈیا کی آزادی کا منفی فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ میڈیا ، جو ایک جمہوری ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، کے حوالے سے مصنفہ نے نہایت سادہ اور عام فہم زبان میںآزادی ِ اظہار، ہتک ِعزت، توہین عدالت، سائبر قوانین، الیکٹرانک اور سوشل میڈیاکی آزادی کے بارے میں پائے جانے والے غلط تصورات اور ان کے حوالے سے بنائے گئے ملکی قوانین کا دیگر ممالک کے قوانین کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔
اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ قومی زندگی کے ہر اہم پہلو کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور پاکستان کے حوالے سے قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر ہونے والی پیش قدمی سے عوام کو باخبر رکھنے کے حوالے سے ہمارا میڈیا دنیا کے کسی بھی ملک کے میڈیا کے مقابلے میں بہتر کام کر رہا ہے۔ کئی حوالوںسے مجموعی طور پر معاشرے کو درپیش نئے چیلنجوں کے بارے میں اتنی آزادی سے معلومات دستیاب کبھی بھی نہیں تھیں جو لوگوں کو نئے اورپوشیدہ حقائق اور معروضات سے آشنا کر سکتیں اور حکومتوں کو عوامی احتسا ب کے کٹہرے میں کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتیں، تاہم اس آزادی کے پہلو میں کچھ منفی چیزیں بھی در آئی ہیں۔ اب تمام معاشرے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آزادیءاظہار کو مادر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی، بلکہ اسے بھی کچھ حدود و قیود کا پابند ہو نا چاہیے۔ چنانچہ اس وقت میڈیا کے سامنے سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ میڈیا بذات ِ خود اس نئی حاصل ہونے والی آزادی کو کس طرح استعمال کرے کہ عام شہری یا کسی گروہ یا مجموعی طور پر معاشرے کی آزادی اور حقوق مجروح نہ ہونے پائیں۔ اس ضمن میںیہ کتاب میڈیا کو اس حقیقت کا احساس دلاتی ہے کہ اس کی آزادی کے پیمانے قانونی، اخلاقی، ثقافتی اور معاشرے کی روایتی تہذیب و ثقافت کے دائرے سے باہر نہیں ہیں ، اورجہاں تک اس کی ذمہ داری کا تعلق ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ خبر یک طرفہ نہ ہو، بلکہ عوام کے سامنے تصویر کے دونوں پہلو رکھے جائیں۔ خبر شفاف اور معروضی انداز میں پیش کی جائے ۔ نیز تیزی سے فروغ پاتے ہوئے میڈیا اور حکومتی اداروں ، جو میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں، میں خود احتسابی کا عمل جاری رہنا چاہیے۔
جب سے ہمارے ملک میں مختلف کاروبار کرنے والے حلقے میڈیا کے آزاد ذرائع کو خرید کر کاروبار کی طرح چلارہے ہیں، ٹی وی کے میزبان کسی قاعدے و قانون کی پابندی کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی ساکھ کھورہے ہیں اور اب لوگوںنے بھی اُن کی باتوں اور معروضات کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ میڈیا کی ملکیت کسی ایک شخص یا کاروباری ادارے کے ہاتھ آجانے سے عوام کو ملنے والی خبروں اور معلومات کے معیار پر منفی اثر ات مرتب ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں ، بلکہ بہت سے دوسرے ممالک میںبھی میڈیا کی طاقت کو سیاسی اور سماجی طاقت کے حصول کے لئے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کئے جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
ہم میںسے وہ لوگ جنہوں نے کلاسک دیومالائی فلم ”The Wizard of Oz“دیکھی ہے، کویاد ہو گا کہ اس میں آج کے دور کے میڈیا کی تمثیل پائی جاتی ہے۔ اُس فلم کا مرکزی کردار ڈورتھی گیل ہے جو ایک نوجوان ، لاچار، یتیم لڑکی ہے ، جسے اُس کا انکل ہنری امریکی ریاست کنساس کے ایک فارم میں پالتا ہے۔ ایک دن تیز طوفانی ہوائیں اُسے اُڑا کر جادوگرنیوں اور چڑیلوں کی پُراسرار دنیا میں لے جاتی ہیں۔ جب ڈورتھی اور اُس کے ساتھی آخر کارجادوگر کے محل تک پہنچتے ہیں تو مرکزی ہال میں ایک عقربی چہر ہ نمودار ہوتا ہے جو باتیں کرتے ہوئے شعلے اُگلتا ہے۔ وہ سب کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔ سب اُ س کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک فریب ِ نظر ہے۔ جب پردہ چاک ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جادوگر دراصل ایک نحیف و نزار سا بوڑھا آدمی ہے ۔ وہ کچھ لیورز اوربٹن دبا کر ایک بڑے سے چہرے کو باتیں کرتا اور آگ اگلتا ہوا دکھاتا ہے۔ وہ بوڑھا پردے کے پیچھے سے مائیک میںچلاتا ہے ” پردے کے پیچھے والے شخص پر توجہ نہ دو، نظر آنے والا بڑا سا چہرہ دیکھو“۔ اُسے ابھی بھی امیدہے کہ ڈورتھی اور اُس کے ساتھی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے فریب ِ نظر کو ہی حقیقت سمجھیں گے۔
آج کی دنیا میں بھی لوگوںنے باتیںکرنے والے ”بڑے سروں “ پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ یہ دیوہیکل سر دن رات، ہر نیوز بلیٹن، اور کمر توڑ دینے والی ”بریکنگ نیوز“ میں ہمارے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ خبری چینل اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ عوام کے ذہنوں کو کس قدر متاثر کرتے ہیں۔ ان ”متاثرین “ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو کہتے ہیں کہ وہ میڈیا پر اعتبار نہیںکرتے۔ گرافک خاکوںاور جانبدارانہ رپورٹنگ کی مدد سے تصویر کے یک طرفہ من پسند پہلو کواجاگر کرتے ہوئے ریاست کا یہ چوتھا ستون خبروں اور معلومات کی دنیا پر اپنی اجارہ داری رکھتا ہے، چنانچہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ یہ ”جادوگر “ ہمارے ذہن کو کنٹرول کرتا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میڈیا ہماری سوچ کے دھارے کو اپنے قابو میں رکھتا ہے، جبکہ دولت مندا ور طاقتو ر حلقے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ا ب یہ معاشرے کی ترویج اور ترقی میں کردار ادا کرنے کی بجائے کمرشل بنیادوں پر پیسہ کمانے والا ادارہ بن چکا ہے۔ اگر گزشتہ دنوں پیش آنے والے کچھ واقعات کو مد ِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ میڈیا بھی بدعنوانی سے مبّرا نہیںہے۔ مخصوص غیر ملکی اور مقامی مفاد رکھنے والے حلقے بھی اپنے مقاصد کی بجا آوری کے لئے اس میں ”سرمایہ کاری “ کر رہے ہیں۔ کہاوت ہے کہ:” شورش پسندی، فساد اوربدعنوانی لاقانونیت کی اولاد ہیں “.... یہ تمام ”خاندان “ بہت ہنسی خوشی پاکستان میں رہائش پذیر ہے، کیونکہ یہاں کی فضا اس کے لئے انتہائی ساز گار ہے۔
اگرچہ ہمارے ملک میں 1972ءمیں میڈیا کے اخلاق کے لئے بنایا گیا ضابطہ موجود ہے، لیکن ابھی ہمیں رپورٹنگ کا معیار بہتر بناتے ہوئے ذمہ دارانہ صحافت کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ایک جمہوری معاشرے میں پریس کو آزاد ہونے کے ساتھ ذمہ دار بھی ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں کوئی ریگولیٹری باڈی اس پر نظر رکھ سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ” پریس کونسل آف پاکستان “ایک قانونی تنظیم کے طور پر کام نہیں کر رہی ۔ ضابطہ ِ اخلاق کے قوانین کو موثر اور قابل ِ عمل بناتے ہوئے انہیں ہماری سماجی، ثقافی اور اخلاقی قدروںکے ساتھ ہم آہنگ کرنے ، چوری شدہ مواد کی اشاعت روکنے اور غیر جانبدارنہ صحافت کو یقینی بنانے کی بجائے پریس کونسل شاید ہتک ِ عزت کے قوانین کو منسوخ کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی دوران میڈیا کی رسائی اور اس کے عوام کے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ایک ایسے ملک میں، جہاں آئین اور قانون کی پاسداری کی کوئی روایت موجود نہ ہو، ایسی آزادی بہت سے مضمرات لئے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا میں سرایت کرجانے والا حد سے زیادہ کمرشل ازم بھی غیر صحت مندانہ مسابقت کو فروغ دیتے ہوئے صحافت کی تقدیس پر سوالیہ نشان اٹھارہا ہے۔ ان رجحانات کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یاسمین آفتاب علی کی کتاب ایک بروقت یادھانی کے مترادف ہے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ آزاد اور ذمہ دار میڈیا ہمارے معاشرے کا اثاثہ، نہ کہ بوجھ ، بن کر اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ پاکستان کی قانونی، سماجی ، اخلاقی اور ثقافتی قدروں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر آزادی کا راستہ اختیار کرے۔ ٭
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔