انسداد پولیو ٹیموں پر حملے کیوں؟
مصر میں1580ءمیں ایک ایسی تصویر ملی، جس میں ایک پادری پولیو کے مرض کی وجہ سے اپاہج ہے۔ 1789ءمیں پولیو بچوں میں تیزی سے پھیل رہا تھا، جس کے نتیجے میں معاشرے میں معذوری کی شرح بڑھ رہی تھی۔ برطانیہ میں ڈاکٹرMichaei Underwood نے اس مرض کی روک تھام کے لئے دوا بنانے کی مہم شروع کی۔ جرمنی میں ڈاکٹرJacob Von نے پولیو کے وجود میں آنے کی اصل وجہ جاننے کی تحقیقات شروع کی اور یہ بھی کہ پولیو پھیلنے والی بیماری ہے کہ نہیں؟ 1849ءمیں پولیو کے مرض کی وجہ سے مکمل اپاہج ہونے والا بچہ منظر عام پر آیا، جس کے بعد امریکہ میں اس بیماری کی روک تھام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر رات دن تیزی سے کام شروع کیا گیا۔ 1948ءمیں ڈاکٹر Thomos Weiler نے پولیو کے خاتمے کے لئے ایک ایسا سیل ایجاد کیا، جو پولیو کے خلاف اہم کام کر سکتا تھا، ان کی اس ایجاد پر انہیں نوبل ایوارڈ دیا گیا، جبکہ 1955ءمیں ڈاکٹرJonas Saikنے پہلی ویکسین تیار کی، جو بچوں کو قطروں کی شکل میں پلانے کے لئے پہلی چوائس تھی۔ اس کے بعد ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے قانون بنایا، جس کے تحت پولیو کے مرض سے بچانے کے لئے بچوں کی پیدائش کے بعد بچے کو ویکسین کے قطرے پلائے جائیں۔
1970ءاور 1980ءمیں ترقی یافتہ ممالک نے پولیو کی روک تھام کے لئے بڑے پیمانے پر مہم شروع کی اور لوگوں کو پولیو ویکسین کی افادیت سے آگاہ کیا گیا اور زور دیا گیا کہ کوئی بچہ بھی اس ویکسین سے محروم نہ رہے۔ 1985ءمیں عالمی سطح پر پرائیویٹ اداروں کی مدد سے پولیو کے خاتمے کے لئے120ملین ڈالر جمع کئے گئے۔ 1990ءمیں عالمی سطح پر ایسی لیبارٹریز کا نیٹ ورک تیار کیا گیا، جس نے پولیو کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے پر ویکسین بنانے کی ذمہ داری قبول کی۔ امریکہ میں اس ویکسین کی مہم کے نتیجے میں1994ءمیں امریکہ نے پولیو فری ہونے کا اعلان کیا، جبکہ 80ملین بچوں کو چائنا میں ویکسین کے قطرے پلائے گئے۔1995ءمیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 19یورپین ممالک میں56ملین سے زیادہ بچوں کو ویکسین کے قطرے پلائے، جبکہ انڈیا میں 87ملین بچوں کو ویکسین کے قطرے پلائے گئے۔ 1996ءمیں نیلسن منڈیلا نے پولیو کے مرض سے نجات حاصل کرنے کی مہم چلانے کا اعلان کیا، جس میں 420 ملین بچوں کو پولیو کے مرض سے بچاﺅ کے قطرے پلائے گئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق2001ءمیں 575 بچوں کو 94 ممالک میں پولیو سے بچاﺅ کے لئے ویکسین کے قطرے پلائے گئے ان میں سے 35ملین کا تعلق افغانستان اور پاکستان سے تھا، جبکہ16ملین بچوں کا تعلق افریقہ کے ان ممالک سے تھا، جو فسادات کی لپیٹ میں تھے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے2002ءمیں پولیو ریجن کو پولیو وائرس سے پاک قرار دیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو2003ءمیں شمالی نائیجیریا میں اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب مقامی لوگوں کی جانب سے پولیو ویکسین کو نقصان وہ قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں ویکسین پلانے کا عمل روک دیا گیا تھا، جس کے انتہائی منفی نتائج سامنے آئے۔ سینکڑوں بچے پولیو کے مرض میں مبتلا ہو کر زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو گئے۔2004ءمیں 23 ممالک کی مشترکہ کوششوں کے بعد پولیو کا دن منایاگیا اور اس دوران 80ملین بچوں کو ویکسین دی گئی۔2005ءمیں پولیو کے خاتمے کے لئے ایک نئی ویکسین (Mopy) کے نام سے بنائی گئی۔ 2006ءمیں افغانستان، بھارت، نائیجیریا، پاکستان، یمن اور انڈونیشیا میں پولیو وائرس سے متاثر بڑی تعداد میں بچے منظر عام پر آئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہنگامی بنیادوں پر پولیو وائرس کے خاتمے کے لئے ویکسین پلانے کی مہم چلائی، جس کے مثبت نتائج نکلے۔ 2007ءمیں انٹرنیشنل پیس ڈے منایا گیا، جس میں 27ممالک میں400ملین سے زیادہ بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کی ویکسین دی گئی۔ اس دوران افغانستان میں80ہزار بچوں کو ویکسین دی گئی۔
2006ءمیں نائیجیریا اور مغربی افریقہ میں ایک بار پھر پولیو وائرس نے سر اٹھایا، جس کے جواب میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ترجیحی بنیادوں پر پولیو وائرس کے خاتمے کے لئے اہم اقدامات کئے۔ ماضی میں دیکھا جائے، تو1950ءاور 1960ءمیں ترقی یافتہ ممالک پولیو کے نام سے خوفزدہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بچے پولیو وائرس کی لپیٹ میں آنے کے بعد اپاہج ہو جاتے تھے، ان ممالک نے پولیو ویکسین کا استعمال مستقل بنیادوں پر کیا اور اس مرض کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے، جبکہ1970ءمیں ترقی پذیر ممالک میں پولیو ویکسین کا استعمال بڑھا اور ان ممالک میں بھی کسی حد تک پولیو وائرس کا خاتمہ کیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دوسرے اداروں نے200ممالک میں تقریباً20ملین رضا کاروں کی مدد سے2.5بلین بچوں کو ویکسین دی، جس پر عالمی برادری نے8بلین ڈالرز سے زیادہ امداد دی۔ عالمی اداروں کی تحقیق کے بعد یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ2011ءمیں سب سے زیادہ پولیو وائرس سے متاثر ممالک افغانستان، نائیجیریا اور پاکستان ہیں جہاں پولیو وائرس معصوم بچوں کو بُری طرح سے معذور کر رہا ہے۔
دُنیا بھر میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسف اور دیگر ادارے اب یہ چیلنج سمجھتے ہیں کہ مذکورہ ممالک سے پولیو وائرس کا خاتمہ کیا جائے۔ ان اداروں کا ٹارگٹ تھا کہ2012ءمیں یہ پولیو وائرس پر مکمل قابو پا لیں گے، لیکن ان اداروں نے اعتراف کیا ہے کہ یہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود 2011ءاور 2012ءسے اب تک پولیو کے کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ 1988ءمیں دنیا بھر میں 350.000 پولیو کیس سامنے آئے تھے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2010ءمیں انڈیا کو پولیو وائرس سے مکمل طور پر پاک کر دیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ10ماہ کے دوران انگولا اور کانگو میں پولیو کا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔ چاڈ میں صرف ایک پولیو وائرس کا متاثر ملا۔ گزشتہ سال اور رواں سال پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں عدم تعاون کی وجہ سے پولیو وائرس کو پھیلنے پھولنے کا موقع ملا۔ GPEL نے پولیو سے مکمل نجات کے لئے اب اپنا ہدف2013ءسے 2018ءتک بنایا۔ ادارے کے مطابق اس مہم پر 5.5بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔
آئی ایم بی نے اپنی رپورٹ میں دنیا بھر کو آگاہ کیا کہ جو بھی پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا جائیں، انہیں چاہئے کہ وہ پولیو ویکسین ضرور لیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں پولیو وائرس موجود ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں پولیو وائرس کے خلاف کام کرنے والے اقوام متحدہ کے رضا کاروں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ پر منفی اثر پڑا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پولیو کے قطرے پلانے والی رضا کاروں کی ٹیم پر حملوں کو ظالمانہ، احساس سے عاری اور ناقابل معافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن پاکستان بھر میں پولیو کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں، ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ نے پاکستان میں جاری پولیو مہم میں شریک اپنے عملے کو واپس بلا لیا تھا اور یونیسف اور عالمی ادارہ صحت کے فیلڈ سٹاف کو مزید احکامات تک پولیو مہم میں شرکت سے روک دیا تھا۔ تصور کریں پاکستان میں تقریباً10لاکھ بجے اب بھی پولیو کے قطروں سے محروم ہیں۔
سنگین حالات کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت کی اپیل پر دوبارہ پولیو مہم شروع کی گئی، تو ایک بار پھر جمرود میں انسداد پولیو ٹیم پر دو بم حملے کر کے دو بچوں سمیت سیکیورٹی پر مامور 11اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پولیو ٹیم پر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ گھر گھر پولیو قطرے پلا رہے تھے۔ یاد رہے کہ جمرود میں گزشتہ کئی مہینوں سے انسداد پولیو ٹیموں پر مسلسل حملے کئے جا رہے ہیں، جن میں پہلے بھی کئی افراد جاں حق ہو چکے ہیں۔ یہ کتنی بڑی جہالت اور ظلم ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کی ان تین اقوام میں شامل ہے، جہاں پولیو وائرس بدستور موجود ہے۔ پاکستان ایسا ملک ہے، جہاںاس موذی مرض میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔2011ءمیں173کیس سامنے آئے تھے، جبکہ رواں سال 56 کیس ر جسٹرڈ ہوئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پھیلاﺅ میں68فیصد کمی لائی گئی ہے۔
اسلام نے انسانی جان بچانے کے لئے ہر طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ یہ رویہ ہر گز درست نہیں اور یہ پاکستان کے بچوں کے ساتھ ظلم ہے اور پاکستان کی آئندہ نسلوں کی صحت کے ساتھ کھیلنے والی مجرمانہ کارروائی ہے۔ پاکستان کے عوام ان کو کبھی معاف نہیں کریں گے، دہشت گردوں نے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیو ٹیموں کے بے گناہ کارکنوں کو اپنے مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھایا۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف جمرود میں پولیو کے خلاف مہم متاثر ہوئی اوردوسری طرف ان جنونی کارروائیوں کے نتیجے میں پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی بھی ہوئی۔ افسوس ہم بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت پاکستان پولیو مہم چلانے والے رضاکاروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے اور اس مہم کو چلانے کے لئے اقدامات کرے۔ اگر حکومت پاکستان نے سست روی کا مظاہرہ کیا تو یہ آنے والی نسل کے لئے انتہائی خطرناک ہو گا، جس گھر میں پولیو وائرس سے متاثر ہو کر ایک بچہ اپاہج ہوتا ہے، کوئی ان کے ماں باپ سے پوچھے کہ اُن پر کیا قیامت گزرتی ہے، حکمران جس طرح اپنے یچوں کا خیال ر کھتے ہیں، اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کے لئے مثبت اقدامات کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو پاکستان میں معذور بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو گا، جو پاکستان کے لئے انتہائی خطرناک ہو گا۔