تھینک یو
وہ شہر میں اجنبی تھا۔ بال ترشوانا چاہتا تھا۔گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے سڑک کے دائیں جانب نظر دوڑائی۔ چند لمحوں بعد اس کی نگاہ ایک باربر شاپ پر ٹک گئی۔ اس نے گاڑی شاپ کے سامنے روکی۔ گاڑی سے اترا۔شفاف شیشے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ دوکان میں تین افراد موجود تھے۔ نووارد نے کہا \"کٹنگ کروانی ہے۔کیا لو گے؟\" ایک شخص نے پتلون میں ملبوس نوجوان لڑکے کو اشارہ کیا۔ نوجوان لڑکے نے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے بائیں ہتھیلی پررقم لکھ کر دکھا دی۔ ساتھ ہی نوجوان لڑکے کے حلق سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی۔ قوت گویائی سے محروم حجام کو سامنے پا کر نووارد حیران تھا اور پریشان بھی۔ دکان پر موجود دیگر دو افراد نے ترجمانی کرتے ہوئے رقم بیان کر دی اور ساتھ تسلی دیتے ہوئے کہا \" فکر نہ کرو ،کام میں ماہر ہے۔\" نووارد نے معمولی رسک لینے کا فیصلہ کر لیا۔چند منٹ بعد دونوں گاہک روانہ ہوئے۔ پتلون میں ملبوس خوش شکل نوجوان نے نووارد کومخصوص کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جھجکتے ہوئے اس نے نشست سنبھالی۔ زبان کے باوجود وہ اشاروں میں کلام کرنے پر مجبور تھا۔ چند منٹ بعد ایک دوست بتانے لگے کہ ان کے دفتر میں سائلین کا آنا رہتا ہے۔ قوت گویائی سے محروم ایک سائل اکثر میرے پاس آتا ہے۔ عینک کے بیان کے لئے آنکھوں کے گرد دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے گولائی میں حلقے بناتا ہے۔ شے کے حجم کو بیان کرنے کے لئے انگلی اور انگوٹھے کے درمیانی فاصلے کو پیمانہ بناتا ہے۔ غیر ملکی عرب یونیورسٹی میں تعلیم پانے والے صاحب کا بیان کردہ واقعہ اب بھی ذہن میں نقش ہے۔ قوت بصارت سے محروم افریقی طالب علم ہمارا یونیورسٹی فیلو تھا۔ رہنمائی کا بیشتر فریضہ روم میٹ سر انجام دیتے۔ وگرنہ کوئی بھی راہ چلتا طالب علم اس کو منزل تک پہنچا دیتا۔ بائیں ہاتھ میں سفید چھڑی تھامتا، خاص طریقے سے ہوا میں بلند رکھتا اور پھر زمین پر ٹکاتا۔ ایک روز میں ناشتے کے لئے میس کی جانب روانہ ہوا۔ نابینا تنہا راستہ ٹٹولتا نظر آیا۔ مَیں نے ہاتھ تھام لیا اور منز ل دریافت کی۔ منزل ایک تھی۔ میس پہنچے تو میں نے دونوں کو پن کاؤنٹر بوائے کو دیئے۔ ایک ٹرے میں اپنے لئے ناشتہ لیا اور دوسری ٹرے میں اس کے لئے۔ دو کرسیاں گھسیٹ لیں اور میز پر ٹرے دھر دی۔ اسے بتایا کہ آج تمہارے ٹرے میں بریڈ کے ساتھ پنیر اور شہد بھی ہے۔ نابینا نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ میں نے پنیر کا کیوب اور شہد کا ساشے اس کے ٹرے میں انڈیل دیا۔ اس نے بریڈ کے ساتھ ان دونوں کا لقمہ لیا۔ منہ میں ڈالا۔ ذائقہ سے آشنائی ، پسندیدگی اور لذت کی جو لہر اس کے رگ و پے میں دوڑی، اس کا وافر حصہ اس کے چہرے پر بھی ظاہر ہوا اس نوجوان کو کیسے بھول جاؤں۔ رمضان کے پر کیف لمحات میں تراویح کی ادائیگی کے لئے جو بیساکھیوں کے سہارے طویل فاصلہ طے کر کے مسجد میں حاضر ہوا۔ وفاقی دارالحکومت میں واقع یونیورسٹی میں تدریس کر نے والا وہ استاد آج بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔دونوں بازو اک حادثے میں ضائع ہو گئے تھے۔ نوجوان لڑکی کی داستان کو کیسے فراموش کر دوں، جو ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔ اہل خانہ کے لئے آزمائش کا سبب بن گئی۔ انٹی ڈیپریشن ادویات نے بسیار خور بنا دیا۔ گٹر میں چھلانگ لگا دی، دقت سے باہر نکالا۔ اہل خانہ نے حفاظت کے لئے برآمدے کو سلاخوں اور دروازہ سے محفوظ بنانے کی سعی لا حاصل کی۔ ایک روز دروازہ کھلا رہ گیا اور وہ گھر سے غائب ہوگئی، مجھے یاد ہے کہ وہ ہاتھوں پر وزن ٹکا کر نچلے دھڑ کو گھسیٹتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ پھر کرسی کے قریب ہوا اور معمولی تگ و دو سے اس پرڈھیر ہو گیا۔ مکینک تھا، جو موٹر مرمت کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ اس کے جسم کا بوجھ اس کی ٹانگوں کی بجائے اس کے بازو اٹھاتے ہیں۔ سہ پہیہ سکوٹر اس ادھیڑ عمر مکینک کی تلاش روزگار میں ہمسفر ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے اس لڑکے کا چہرہ میری یادداشت میں تازہ ہے۔ رنگت سرخ و سپید اور قامت بلند تھی۔ ذہنی طور پر مفلوج تھا۔بال بکھرے تھے۔منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔ بوڑھا باپ اس کو روک رہا ہے۔ گھر سے وہ کاریگر کی مہارت سے مطمئن رخصت ہوا۔باہر جانے کی ضد کر رہا ہے۔ باپ کی پیشں نہیں چل رہی تھی۔ وہ ہاتھ جو \"مظلوم کے گریبان تک\" پہنچتے ہیں ، وہ گردن جو \"اکڑ کا شکار\" رہتی ہے ، وہ سینہ جو \"فخر سے چوڑا\" ہوتا ہے، وہ زبان جس سے ہم \"پھر\" جاتے ہیں، وہ پاؤں جو ہم \"زمین پر نہیں رکھتے\"، وہ آنکھیں جو \"میلی کرتے\" ہیں، وہ خون جو \"سفید ہوا جاتا\" ہے اور وہ دل جو \"بے ایمان\" ہوا رہتا ہے، اگر یہ چھن جائیں تو کیا زندگی کی تصویر ایسی ہی رنگین و دلفریب ٹھہرے گی! اگر موجود نعمتوں میں سے ایک نعمت بھی واپس لے لی جائے، توکیا میرا اور آپ کا حالیہ سٹیٹس کیا ہم انگلیوں، ہاتھوں، بازوؤں، پاؤں کے بنا۔۔۔عقل،سماعت،بصارت اور گویائی کے بنا، ایک دن ہر گز نہیں۔ تونعمتوں کی قدر کیجئے۔ ان کا حق ادا کیجئے۔ پروردگار کو ان عظیم انعامات پر شکر برقرار رہے گا! یہ کہیے۔ ہر صبح کہیے:\"تھینک یو\"۔