فیصل آباد پولیس مقابلے میں مارے جانیوالے 3 لڑکوں کے وارثاء کا لاشوں سمیت احتجاج

فیصل آباد پولیس مقابلے میں مارے جانیوالے 3 لڑکوں کے وارثاء کا لاشوں سمیت ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 فیصل آباد(بیورورپورٹ)اتوار کی رات کھڈیاں وڑائچاں میں پولیس کے ساتھ مبینہ مقابلہ میں ہلاک ہونے والے تین نو عمر لڑکوں کے ورثا‘عزیز واقارب اور اہل علاقہ نے گذشتہ دوپہر کے وقت نعشیں ملتے ہی ستیانہ روڈ گیٹاں والا چوک میں رکھ کر پولیس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور نفرت انگیز نعرے بازی کی‘ مظاہرین نے پولیس مقابلہ کو بالکل جھوٹ اور مقتول لڑکوں پر ڈکیتی چوری کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا‘ آخری اطلاع کے مطابق تینوں لڑکوں کی نعشیں گیٹاں والا چوک میں تقریبا 8گھنٹے سے پڑی تھیں اوراحتجاجی مظاہرین کا موقف تھا کہ جب تک تین نو عمر لڑکوں کو قتل کرنے والے مقدمہ میں نامزد ہو کر گرفتار نہیں ہو جاتے اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا مقتولین کے ورثاء کے مطابق انہیں ان کے گھروں اور کلب میں کھیلتے ہوئے پولیس اپنے ایک معاون کی اطلاع پر ہفتہ کے روز پکڑ کر اپنے ہمراہ لے گئی کہ ان پر چوری کا شبہ ہے اور ان مقتولین کو پکڑوانے میں مرکزی کردار ایک سابق پولیس ملازم اختر کا ہے حالانکہ ان کے خلاف ڈکیتی چوری وغیرہ کا آج تک کوئی مقدمہ درج نہیں ہے وہ پہلی مرتبہ تھانہ میں گئے جہاں سے بعدازاں ان کی نعشیں ہی واپس آئیں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 15سالہ حیدر علی کے والد دلاور کا کہنا ہے کہ وہ محلہ الہی آباد کی گلی نمبر5کا رہائشی ہے ہفتہ کی دوپہر اختر رندھاوا‘ایک پولیس کانسٹیبل علی رضا اور چند دیگر پولیس ملازمین کے ہمراہ ہمارے گھر آیا اور حیدر علی کو باہر بلوایا‘ کہا کہ اس پر چوریوں وغیرہ کا شبہ ہے اسے کل تک واپس بھیج دیں گے مگر دوسرے روز اس کی پوسٹ مارٹم شدہ نعش ملی اس کے ورثاء کا کہنا ہے کہ پولیس جب اسے گھر سے پکڑنے آئی تو حیدر علی کے بارے میں یہ کہہ کرانہیں ساتھ لے گئی کہ کل تم لوگ تھانہ میں آ جانا اسے واپس بھیج دیں گے.بس تھوڑی سی معلومات لینی ہیں دوسرے مقتول نو عمر لڑکے کا نام دلاور ہے جو کرامت آباد گلی نمبر3کا رہائشی ہے اور اپنے والد کے ساتھ پکوان کا کام کرتا ہے اس کا والد حاجی مقصود محمد آبادگلی نمبر11میں پکوان کا کام کرتا ہے اورمقتول دلاور بھی وہیں کام کرتا ہے جسے اختر رندھاوا اور پولیس اپنے ہمراہ لے گئی اور اس کے بعد اس کی نعش ہی واپس ملی. تیسرے مقتول زوہیب کا تعلق بھی الہی آبادد سے ہے جو ہفتہ کی دوپہر کلب میں بلیئرڈ کی گیمز کھیل رہا تھا کہ پولیس اسے بھی اختر رندھاوا کی وساطت سے اپنے ساتھ لے گئی اس کے بعد اس کی نعش ملی ان کی نعشیں ملنے کے بعد الہی آباد اور اس کے گردونواح کی مساجد میں احتجاج کیلئے اعلانات کئے گئے اور لوگ وہاں اکٹھے ہونے لگے پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اکٹھے ہونے شروع ہو گئے اور پھر ستیانہ روڈ پر احتجاج شروع کر دیا احتجاجی مظاہرین نے نعشیں گیٹاں والا چوک میں رکھ دیں اور اور خود دکانیں بند کروانے لگے اس دوران مشتعل مظاہرین نے دوکانوں پر کچھ توڑ پھوڑ بھی کی اس طرح ستیانہ روڈ اور اس کے گردونواح میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا انتظامیہ اور ٹریفک پولیس نے لوگوں کی آمدورفت کیلئے کوئی بہتر حکمت عملی ہی تیار نہ کی قریبی سڑکیں اور گلیاں بھی آمدورفت کیلئے ناکافی ہو گئیں اور دن بھر احتجاج ہوتا رہا جو رات گئے تک جاری رہا۔

مزید :

علاقائی -