اینٹی کرپشن کی متنازعہ کلیئرنس رپورٹوں پر سی اینڈ ڈبلیو میں انگلیاں اُٹھنے لگیں
لاہور(شہباز اکمل جندران//انوسٹی گیشن سیل) اینٹی کرپشن کی متنازعہ کلیئرنس رپورٹیں سی اینڈڈبلیو میں ’’ٹاک آف ٹاؤن ‘‘ً بن گئیں۔گریڈ 17سے 18میں پھر 18سے 19اور اب گریڈ 19سے 20میں چیف انجینئر کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی کے لیے اینٹی کرپشن کی طرف سے دیئے جانے والے این او سی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔مقدمات اور انکوائریوں میں ملوث انجینئر وں کو کلین چٹ کیسے دی گئی۔ کس نے کتنی بڑی سفارش کروائی یا کتنے پیسے کھلائے ؟ صوبائی سیکرٹری مواصلات و تعمیرات اور ڈی جی اینٹی کرپشن متنازعہ رپورٹس پر خاموش کیوں ہیں؟انجنئیر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔معلوم ہواہے کہ ان دنوں سی اینڈڈبلیو پنجاب کے ہر دفتر میں اینٹی کرپشن کی رپورٹس موضوع بحث ملتی ہیں۔علم میں آیا ہے کہ پنجاب پروموش پالیسی 2010 کی شق 9(4)کے تحت ، ڈسپلنری ، محکمانہ یا اینٹی کرپشن کی انکوائریوں اور مقدمات میں ملوث ملازمین کومتعلقہ اداروں سے کلئیرنس ملنے تک ترقی نہیں دی جاسکتی۔اور سی اینڈڈبلیو میں انجنئیروں کی ترقی سے قبل محکمہ اینٹی کرپشن سے این او سی حاصل کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دنوں یہ این او سی اس قدر متنازعہ ہوچکے ہیں کہ کسی کو ان پر یقین نہیں رہا۔ جس کی وجہ گریڈ 17سے 18میں ، 18سے 19اور اب گریڈ 19سے 20میں چیف انجنئیر کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی کے لیے اینٹی کرپشن کی طرف سے دیئے جانے والے این او سی میں پائی جانے والی خامیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ سی اینڈڈبلیو کے انجنئیر مقدمات اور انکوائریوں میں ملوث ہونے کے باوجود رشوت دیکر کلیرنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔حال ہی میں گریڈ 17کے اسسٹنٹ انجنئیروں کوگریڈ 18میں بطور ایکسئین ترقی کے لیے بورڈ کا اجلاس ہوااور کئی ایسے انجنئیروں کو ترقی دینے کی سفارش کی گئی جن پر اینٹی کرپشن میں نہ صرف مقدمات زیر التوا تھے ۔بلکہ انکوائریاں بھی چل رہی تھی۔اسی طرح گریڈ 18کے ایکسئنز کو گریڈ 19میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی دینے کے لیے صوبائی سلیکشن بورڈ ون نے اینٹی کرپشن کی این او سی وغیر ہ پر مشتمل رپورٹس کی روشنی میں سفارش کی ۔لیکن بعدازاں صوبائی سیکرٹری سروسز کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ ترقی کی سفارش پانے والے بعض انجنئیروں کے خلاف مقدمات اور انکوائریاں زیر التوا ہیں۔ اسی طرح جب گریڈ 19کے سپرنٹنڈنٹ انجنئیروں صفدر علی، سہیل رضا ، محمد طارق اور فرحت منیر کو چیف انجنئیر کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی کے لیے کیس صوبائی سلیکشن بورڈنے سفارش کی تو میڈیا میں یہ بات سامنے آئی کہ انجنئیر محمد طارق اینٹی کرپشن منڈی بہاوالدین کے مقدمہ نمبر 13/11میں ملوث ہیں۔ اس بات کا اعتراف خود انجنئیر محمد طارق بھی کرتے ہیں کہ ان کے خلاف اینٹی کرپشن نے مقدمہ نمبر13/11میں جوڈیشل ایکشن منظور کرنے کی سفارش کی ہے۔ان پر الزام ہے کہ انہو ں نے ہیڈ رسول سے بھیرہ تک بننے والی 80کلومیٹر طویل سٹرک کی تعمیر میں بدعنوانی کرتے ہوئے ادائیگیوں کی سفارش کی۔اور ان کی سفارش پر 63کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ اسی طرح ترقی پانے والے ڈائریکٹر برجیز سہیل رضا اور صفدر علی کے خلاف شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حافظ آباد کے نزدیک کوٹ ہرا سے ونیکے تارڑ ، جلال پوربھٹیاں روڈ پر پل کی تعمیر میں دوکروڑ10لاکھ روپے کی کرپشن کے الزام میں اینٹی کرپشن حافظ آباد میں مقدمہ نمبر11/14درج کیا گیا۔اور یہ مقدمہ اینٹی کرپشن گوجرانوالہ کے اسسٹنٹڈائریکٹرٹیکنیکل کے پاس زیر التوا ہے۔ اسی طرح ترقی پانے والے چوتھے انجنئیر فرحت منیر کے خلاف کرپشن کے الزامات پر مبنی انکوائری نمبر 1404/13زیر التوا بتائی جاتی ہے۔ مذکورہ انکوائری میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ فرحت منیر اور دیگر انجنئیروں نے پنڈی بھٹیاں ٹول پلازے کی رقم میں خوربرد کی۔ ذرائع کے مطابق ڈی سی او حافظ آباد نے بھی مذکورہ خوربرد کی تصدیق کی ۔ لیکن اینٹی کرپشن نے فرحت منیر کا نام اس انکوائری سے ڈراپ کرنے کی سفارش کردی۔ چیف انجنئیر صفدر علی ترقی کے نوٹیفکیشن سے قبل ہی ریٹائر ڈ ہوگئے ہیں۔البتہ سی اینڈڈبلیو کے ہر دفتر میں ترقی پانے والے نئے چیف انجنئیروں کے اثررورسوخ اور اینٹی کرپشن کی رپورٹس کا چرچا سنائی دیتا ہے۔اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے ان اعلیٰ انجنئیروں کی کاوشیں بھی زیر بحث ہیں۔انجنئیر ایکدوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کلین چٹ کے لیے کس نے کتنی بڑی سفارش کروائی یا کتنی رشوت کھلائی۔صوبائی سیکرٹری مواصلات میاں مشتاق احمد اور ڈی جی اینٹی کرپشن انور رشید متنازعہ این او سی پر خاموش کیوں ہیں؟