سینیٹ چیئرمین ،ڈپٹی چیئرمین، جوڑ توڑ آخری مراحل میں
تجزیہ چودھری خادم حسین
توقع کے مطابق سینٹ کے انتخابات کی تکمیل کے ساتھ ہی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کے لئے رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، اس سلسلے میں گزارش کی اور حساب لگا کر بتایا تھا کہ حکمران جماعت اور حزب اختلاف (پیپلزپارٹی) اکیلے اکیلے فتح حاصل نہیں کر سکتے ان کو چھوٹی جماعتوں کے تعاون کی ضرورت ہوگی، پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری نے پتے ہوشیاری سے کھیلے متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) ، جمعیت علماء اسلام (ف) اور اے این پی کے ساتھ انتخابات ہی میں ایڈجسٹمنٹ کی اور تعاون حاصل کرکے چلے، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اکیلے پرواز کی۔ اب آصف علی زرداری کے لئے اپنے حلیفوں سے بات کرنا آسان ہے اور میاں صاحبان کے لئے مشکل کہ ان کی طرف سے اب کوشش کی گئی ہے۔ اب وزیراطلاعات کہتے ہیں کہ متفقہ امیدوار لایا جائے گا۔ آصف علی زرداری کے لئے دونوں نشستوں پر اپنے امیدواروں پر اتفاق رائے حاصل کرنا مشکل ہے تو حکمران جماعت ان سے زیادہ سخت حالات سے گزر رہی ہے۔ آصف علی زرداری حلیف جماعتوں سے چیئرمین کے امیدوار پر صاد کرا سکتے ہیں تاہم وہ ڈپٹی چیئرمین مانگیں گے تو ایک انار سو بیمار والا حال ہوگا کہ ہر جماعت یہ مطالبہ کرے گی۔ آصف علی زرداری کے مسلم لیگ(ق) سے تعلقات بہت اچھے ہیں، اس کے باوجود چودھری شجاعت کہتے ہیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے رابطہ کیا ہے، فیصلہ جماعت کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے حلیف ہوتے ہوئے ایسی گنجائش پیدا کرنے کا مقصد واضح ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور متحدہ نے بھی نئے سرے سے فیصلے کی گنجائش رکھی تاکہ سودے بازی ہو سکے اور یہ دونوں طرف ہو سکتی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے متفقہ امیدوار لانے یعنی بلا مقابلہ انتخاب کا عندیہ دیا جو اسی طرح ممکن ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں آپس میں محاذ آرائی اور مقابلے کی بجائے مفاہمت سے کام چلائیں اور یہ ممکن ہے ناممکن نہیں۔ اس طرح دو عہدے برابر تقسیم ہو سکتے ہیں، یہی اقدام جمہوریت کے لئے بہتر ہے۔ آصف علی زرداری سیانے ہیں تو میاں صاحبان بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ آج یہ نتیجہ بھی نکل ہی آئے گا، زیادہ امکان افہام و تفہیم کا ہے۔ ذرا تحریک انصاف کی شان ملاحظہ فرمائیں۔ چیئرمین کپتان عمران خان نے باؤنسر پھینکا ہے۔ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) جوڈیشل کمیشن بنا دے اور چھ ووٹ لے لے اور یہ کمیشن تو اسے بنانا ہی ہوگا چاہے ہم سڑکوں پر نکل کر بنوا لیں۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کمیشن بنا کر ووٹ تو لے لے ورنہ ہم ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے۔ اب جناب ان چھ ووٹوں کے لئے تو فوراً کمیشن نہیں بن سکتا۔ اس کے لئے بہت سے امور پر اتفاق ہو چکا، صرف دم اٹکی ہوئی ہے۔ اب تو وعدہ ہی کیا جا سکتا ہے جو پہلے ہی سے موجود ہے لہٰذا عمران خان کا مرغا انہی کے پاس رہے گا اور اغلباً دونوں بڑی جماعتیں اتفاق رائے پیدا کرلیں گی۔ متحدہ ، مسلم لیگ (ق) اور اے این پی والے بھی سمجھ دار ہیں، عمران خان کی شرط تو مہمیز کا کام دے گی اور یہ سب مل کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ انتخاب اتفاق رائے سے ممکن ہے اور زیادہ امکان یہی ہے۔