نظام تبلیغ جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت
اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی تعلیم و تدریس اور تبلیغ و اشاعت کے سلسلے میں امت مسلمہ نے حتیٰ المقدور لائق تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان میں بھی تبلیغی جماعت کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، ہر دور میں نظام تبلیغ و تعلیم مختلف انداز میں بروئے کار لایا گیا۔
اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، تبلیغ اسلام کے پاکستان مرکز رائے ونڈ میں اجتماع کے موقع پر مجھے چند مرتبہ حاصر ہو کر نظام کے مشاہدے کا موقع ملا ہے۔ اس نظام کی افادیت اور اثرات سے مجال انکار نہیں، لیکن کوئی بھی جدوجہد حرف آخر ہرگز قرار نہیں دی جا سکتی، اس میں حالات و واقعات کے مطابق تغیر و تبدل ایک عصری ضرورت ہے، چنانچہ مجھے چند مرکزی شخصیات سے دوران ملاقات اس سلسلے کی جانب توجہ دلانے کی سعادت ملی ہے۔
تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے جماعتیں روانہ کی جاتی ہیں۔ ان جماعتوں میں مختلف ممالک کی زبانوں (خصوصاً انگریزی، فرانسیسی اور افریقی ممالک میں بولی جانے والی زبانوں) کے ماہرین شامل ہوتے ہیں جو لائق تحسین اقدام ہے، لیکن میری معلومات کے مطابق ان جماعتوں میں ہندی اور گورمکھی وغیرہ زبانوں میں مہارت اور دسترس رکھنے والے افراد شامل نہیں کئے جاتے۔ اس کی مختلف وجوہات میں یہ بھی ہے کہ بھارت کے علاقے مشرقی پنجاب میں چونکہ 1947ء کے فسادات کے موقع پر تمام مسلمانوں کو یا تو شہید کر دیا گیا یا انہیں جبراً ہندو سکھ بنا لیا گیا تھا۔ اور باقی ماندہ کو علاقہ چھوڑ کر پاکستان میں چلے جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔اب چونکہ دونوں ملکوں کے مابین مشرقی پنجاب کے علاوہ دیگر حصوں میں آمد و رفت کا سلسلہ قائم کرنے میں کچھ سہولت فراہم ہو رہی ہے، اندریں صورت حال دونوں ملکوں کے افراد کو چاہیے کہ ان میں رائج زبانوں (ہندی، گورمکھی، گجراتی وغیرہ)میں دسترس اور مہارت حاصل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے اور مکتلف زبانیں سکھلانے کے لئے جگہ جگہ ادارے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں سیدنا رسول اللہﷺ کا اسوۂ حسنہ اور آپؐ کے اقدامات ہر وقت پیش نظر رہنے چاہئیں کہ آپؐ نے امت مسلمہ کے افراد کو مختلف زبانیں سیکھنے کی تعلیم دی ہے اسی لئے صحابہ کرامؓ کو اس دور کی مروجہ زبانوں (عبرانی، فارسی وغیرہ) میں دسترس اور مہارت حاصل کرنے پر مامور کیا تھا، چنانچہ حضرت زیدؓ نے چند روز میں عبرانی زبان پر دسترس حاصل کرلی تھی۔مختلف زبانوں میں مہارت کا مقصد اسلام کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنی تجارت اور سفارت کو فروغ دینا بھی ہے، تبلیغ اسلام کے سلسلے میں اس وقت جو اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں ان کی افادیت کے اعتراف کے ساتھ یہ پہلو مدنظر رہنا چاہیے کہ سیدنا رسول اللہﷺ نے اس دور کے غیر مسلم حکمرانوں کے نام خطوط مبارک ارسال کرکے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔آج امت مسلمہ کی تبلیغی جماعتیں صرف اسوۂ حسنہ کے ایک پہلو کی روشنی میں صرف براہ راست عوام کو خطاب کر رہی ہیں اور بذریعہ خط و کتاب تبلیغ اسلام کا اسوۂ حسنہ نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔نیز تبلیغ اسلام کے سلسلے میں مختلف زبانیں سکھانے کے ادارے قائم کرکے مبلغین اسلام کی ایسی جماعتیں تیار کی جائیں جو دنیا کے مختلف علاقوں کی زبان سے واقف ہوں اور ان زبانوں پر پوری مہارت اور دسترس رکھتی ہوں، اس کے اثرات گہرے مرتب ہوں گے۔
بذریعہ خط و کتابت تبلیغ اسلام
پاکستان میں اس وقت جو ذرائع ابلاغ سرگرم عمل ہیں ان میں عوام سے براہ راست خطاب، بذریعہ سفارت کاران رابطہ اور بذریعہ دینی مدارس کے قیام وغیرہ شامل ہیں لیکن اسوۂ حسنہ کی ایک پہلو اور گوشے کی جانب اس کے شایان شان توجہ مبذول نہیں ہے وہ ہے بذریعہ خط و کتابت اسلامی نظام کے نفاذ کی دعوت۔یہ کوئی مشکل اور استطاعت سے خارج عمل نہیں ہے جس کی ادائیگی دشوار ہو، یہ صرف غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے نظر انداز ہے، ایک تو اس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، ثانیاً یہ کہ جس طرح ہمارے ہاں تجارتی یا سیاسی تشہیر کی خاطر میڈیا کے چینلز سرگرم ہیں کیا، اس مملکت اسلامیہ میں کوئی اللہ کا بندہ ایسا موجود نہیں جو دین اسلام خصوصاً قرآن و سنت کی تشہیر و تبلیغ کے لئے اپنے مالی وسائل اور ملی اصلاح کی صلاحیتیں بروئے کار لا کر ایک ایسا اقدام کرنے کی سعادت حاصل کر سکے جو اس کے لئے ابدی صدقہ جاریہ ہو۔تبلیغ اسلام کے سلسلے میں جہاں زبانی تبلیغ کا نظام موجود ہے، وہاں تحریروں اور ٹی وی چینلز کے ذریعے بھی قرآن و سنت بالخصوص سیرت النبیﷺ کی مکمل تبلیغ اور تشہیر و اشاعت کے سلسلے میں موثر ادارہ قائم کرنا عصر حاضر کی نہایت اہم ضرورت اور تقاضا ہے، اس کے لئے ارباب ذوق اور اصحاب صلاحیت کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، امید ہے کہ ہماری یہ گزارش صدالبصحرا ثابت نہیں ہو گی۔