"وزیراعظم عمران خان کادورہ تھراور تھری باشندوں کی امیدیں"
گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ضلع تھرپارکر کے تعلقہ چھاچھروکا دورہ کیا ،وزیراعظم نے اپنے دورہ چھاچھرو میں ایک لاکھ بارہ ہزار تھر کے گھرانوں کے لیے ہیلتھ کارڈ کے اجراء اور تھر کےمختلف گاؤں گوٹھوں میں ایک سو کے قریب آراو پلانٹ اور بڑی تعداد میں تھر میں سولر سٹم مختلف دیہاتوں میں دینے کا اعلان کیا ، وزیراعظم نے کہا کہ ضلع تھرپارکر کے پچھتر "75"فیصد تھری باشندے غربت کی لکیر کے نیچے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے دورے تھر کےحوالے سے تھری باشندوں کو کافی امیدیں اور توقعات وابستہ تھی غریب تھری باشندوں کی اکثریت نے وزیراعظم عمران خان کےدورہ تھر پراعلانات پر مایوسی کا اظہارکیا ہے۔ تھرکےلوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ہیلتھ کارڈ کا اجراءاور وزیراعظم کے دیگر اعلانات اچھے اقدامات ہے مگر تھر کےلوگوں کو روزگار پینے کے صاف میٹھے پانی تعلیم غربت کے خاتمے اور ہرسال تھر میں قحط سالی سے نمٹنے کےلیے ٹھوس جامع عملی اقدامات اور تھر کےلیے ایک بڑے بھرپور جامع پیکج کی ضرورت ہے ،وزیراعظم کو تھر میں غربت بھوک افلاس بےروزگاری تعلیم کےحوالے سے ٹھوس مستقل بنیادوں پرحل کےلیے کام کرنا چاہیےاس دور جدید میں جب انسان مریخ پر پہنچ چکا ہے مگر تھرکے غریب تھری باشندے ہروقت مشکلات کا شکار ہے تھرپارکرضلع کے اکثر وبیشتر گاؤں گوٹھوں میں غربت بھوک افلاس کے ڈیرے ہیں،غذائی قلت سے ہرسال تھر میں غذائی قلت سے سینکڑوں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں رواں سال میں اب تک ساڑھے چھے سو "650"بچے موت کی آغوش میں جاچکے ہے تھرمیں غربت بھوک افلاس بےروزگاری اور غذائی قلت سے مصوم پھولوں بچوں ہلاکتوں انسانی زندگی کی مشکلات کےباعث تھر میڈیا کامحوربنا ہوا ہے۔
صحرائے تھر صحارا اور گوبی کےبعد دنیا کاتیسرا بڑا ریگستان ہے تھر میں اگر قدرت مہربان ہوجائے باران رحمت کا نزول ہوجائے تو تھرجنت نظیر وادی کا روپ دھار لیتا ہے اور اگر تھر کی پیاسی زمین پرمطلوبہ بارشیں نہ ہوتو صحرائے تھر میں قحط سالی شروع ہوجاتی ہے، تھری باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں تھرمیں شدید ترین گرمی ہوتوغریب تھری باشندے پینے کے پانی کی بوند بوند کوترستے ہیں، اگر شدید ٹھنڈ سردی ہوتو غریب تھری باشندے اپنے جھونپڑیوں میں سردی سے ٹھٹھرتے ہیں۔ شدید سردی میں جھونپڑیوں میں رہنے والے مصوم پھولوں میں نمونیا کھانسی سینے کے امراض ہوجاتے ہے افسوس ناک امر یہ ہےکہ صرف رواں سال میں تھر میں غذائی قلت اور مختلف بیماریوں سے غذائی قلت پینے کاپانی سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ آج بھی اس دور جدید غریب تھری باشندے خصوصاً غریب خواتین ننگے پیروں اپنے سروں پر بھاری مٹکے لاد کر اپنی اور اپنے مصوم بچوں کی پیاس بجھانے خاطر پینے کے پانی کی تلاش میں کئی کئی میل کا مفاصلہ طے کرنے پرمجبور ہے ۔
کچھ عرصہ قبل سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھر کی زمینی صورتحال، تھری باشندوں کی مشکلات اور ان کی زندگی کی ضروریات کا جائزہ لینے کےلیے تھر کا دورہ کیا تھا مگر افسوس کہ اسکے کوئی خاطرخواہ نتائج نہ مل سکے۔ ستم ظریفی کی حد تو یہ ہےکہ تھر بلیک گولڈ "کوئلہ"کے اربوں ٹن ذخائر اور دیگر قدرتی معدنیات کی دولت سے مالامال ہونے کےباوجود پانی کی بوند بوند کےلیے ٹھوکریں کھانے پرمجبور اور بےبس ہے اس سال دنیا کے تیسرے بڑے صحرائے تھر میں مطلوبہ بارشیں نہ ہونے سے تھر میں قحط سالی ہے ۔ تھر میں قحط کے باعث پینے کے پانی کابحران سنگین ہوتاچلاجارہا ہے صحرائے تھر میں انسانی زندگی کے لیے "پانی"زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے، غریب تھری باشندوں کو شدید ترین گرمی میں تپتی ریت میں خچروں، اونٹوں، گدھوں اور غریب تھری خواتین ننگے پیروں اپنے سروں پر مٹکے ڈرم اور کین لاد کر میلوں پیدل پانی بھر کر لانا پڑتاہے۔
شدید سردی کی سرد راتیں سردی میں ٹھٹھرکر گذارنا پڑتی ہےغریب تھری باشندے پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہے تو تب کہیں پانی کا ایک قطرہ وہ اکٹھا کرپاتے ہے تھرکی خواتین اپنے سروں پر بھاری مٹکے رکھ کر پانی کیلیے کئی میل کی مسافت طے کرتی ہیں بعض اوقات تو تھر میں انسان اور جانور اونٹ گدھا خچر ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
تھر میں قدرت کا نظام ہے کہ اگر مطلوبہ اوقات میں باران رحمت کا نزول بارشیں ہوجائے تو تھر ایک جنت نظیر حسین وادی کا روپ دھار لیتا ہے اور اگر تھر میں مطلوبہ بارشیں نہ ہوتو شدید قحط سالی ہو جاتی ہے ۔صحرائے تھر میں شدید قحط سالی کے دوران انسانوں کے ساتھ بے زبان جانور بھی بیراج علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ وہ تھرکےلوگوں کےلیے بہت کچھ کررہی ہے مگر حقائق اسکے برعکس ہے زیادہ تر معاملات پرسیاسی انداز میں توجہ دی جاری ہے غریب تھری باشندے حکومت سندھ کی امداد کےنام پر پچاس کلو گندم کےحصول کےلیے ہاتھ پھیلانے پر مجبورہے۔ وفاقی حکومت کا تو تھر کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں ، تھر کےاکثر لوگ شکوہ کرتے نظرآتےہیں کہ وفاقی حکومت تھرکےمسائل مستقل بنیادوں پرحل کریں۔ غریب تھری باشندوں کی اکثریت کاکہناہے کہ پچاس کلوگندم کی فراہمی حل نہیں ، وزیراعظم عمران خان کی وفاقی حکومت تھر میں قحط سالی غربت بھوک افلاس کا حل مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں کرتی ۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بھی تھر سے ایک خاص تعلق رہا ہے اور حالیہ الیکشن میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے تھر سے الیکشن میں حصہ لیا تھا، تھر میں پاکستان کو بلیک گولڈ "کوئلے "پاکستان کوروشن کرنے انرجی کے منصوبے شروع ہیں، تھری باشندوں کا واحد ذریعہ معاش مال مویشی کی تجارت میں ہے یا پھر تھر میں بارشیں ہونے کی صورت میں تھر میں بنجر زمینوں کوآباد کرکے کھیتی باڑی کرتے ہیں،پانی کا زیادہ تر انحصار بارشوں پر کیا جاتا ہے،لوگوں نے پانی کے حصول کے لیے کنویں کھود رکھے ہیں لیکن اس وقت ان کنوؤں میں پانی زیادہ تر خشک ہوچکا ہے یا پھر پانی انتہائی خشک اور زہریلا ہوچکا ہے۔ ہیلتھ ماہرین کے مطابق تھر کے زیر زمین پانی میں سنکھیا شامل ہےاسی وجہ سے غریب تھری باشندے پینے کے پانی کا زیادہ تر انحصار بارشوں کے پانی پر کرتے ہیں جب اچھی بارشیں ہوتی ہے تو تھر کے باشندے تالابوں جسے تھر کی مقامی زبان میں "ترائی "کہتے ہیں اس میں بارش کا پانی ذخیرہ کرلیتے ہیں تھر میں زمین دوز ٹینک بنائے جاتے ہیں جس میں پانی ذخیرہ کیاجاتا ہے۔ پھر یہ کئی روز کا بوسیدہ پانی تھری باشندے استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تھر میں بارشیں ماہ جون سے اگست تک بارشوں کا سلسلہ رہتا ہے اگست تک اگر تھر میں مطلوبہ بارشیں ہوجائیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر ضلعی انتظامیہ تھر میں قحط ڈکلیئر کردیتی ہے جس کے بعد تھر میں امدادی کارروائیاں شروع کی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت سندھ نے تھر میں پینے کے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے بڑی تعداد میں آراو پلانٹ لگائے گئے ہیں مگر یہ تھر میں آبادی کے لحاظ سے نہ کافی ہیں جس میں سے تو اکثر وبیشتر تو صیح کام نہیں کررہے ہیں۔ ان تھری باشندوں کے بقول اکثر وبیشتر آراو پلانٹ سیاسی سفارشی بنیادوں پر لگائے گئے ہیں تھر میں غربت بھوک افلاس بیروزگاری کے باعث غریب تھری باشندے شدید مشکلات کا شکار ہے ۔ہر سال تھر میں غذائی قلت کے باعث سینکٹروں بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اب سردی اختتام کے قریب ہے موسم گرما کی آمد ہے غریب تھری باشندوں کی مشکلات کم نہیں لیکن افسوس کہ سندھ کی ترقی کا نعرہ لگانے والوں کو یہ سب نظر نہیں آرہا ،وزیراعظم عمران کے صحرائے تھر کے دورے کےبعد غریب تھری باشندوں کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہوچلی ہےکہ وزیراعظم کے دورے سے تھر کی قسمت جاگ جائے، حکومت سندھ کےساتھ ساتھ وفاقی حکومت تھر کی ترقی وخوشحالی اور تھری باشندوں کے مسائل کے مستقل حل کےلیے ایک جامع پیکج دے گی تاکہ تھر کے مسائل کا مستقل ٹھوس حل نکل آئے ۔۔۔
تھر کے غریب لوگوں کا واحد ذریعہ معاش مال مویشی کی تجارت ہے اگر وفاقی حکومت اور سندھ حکومت تھرپارکر میں ایگریکلچر فیکٹر میں کام کریں تھر کے غریب لوگوں کو زرعی فصلوں کی کاشت کےلیے بیج وغیرہ مفت فراہم کیے جائیں ،پانی کی سہولت دی جائے تو تھر میں زراعت کو کافی فروغ ملےگا، تھرمیں وفاقی حکومت کا ایگریکلچرل ڈپارٹمنٹ تھر میں سبزیوں اور کچھ فروٹ کی کاشت کے محدود چھوٹے پیمانے پر کامیاب تجربات کرچکا ہے لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع ملے گے تو دوسری طرف تھر میں غربت بھوک افلاس کے خاتمے میں بھی بڑی حد تک مدد ملےگی، تھر میں پانی ذخیرہ کےلیے چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں ،میٹھے پانی کی فراہمی کے جامع حکمت عملی بنائی جائیں تو تھر میں کافی حد تک قحط سالی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔