میں تحریک انصاف میں کیوں شامل ہوا؟
میرے لیے 3مارچ2021کادن اس لیے اہم ہے کہ میں نے اس دن نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔وزیراعظم عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی اور تحریک انصاف میں شمولیت کااعلان کیا۔اس ملاقات کااہتمام وفاقی وزراء مخدوم خسروبختیاراورفوادچوہدری نے کیاتھا۔
سینکڑوں دوستوں اورجاننے والوں نے اپنے اپنے اندازمیں ردعمل دیا۔ 70 فیصد لوگوں نے نہ صرف فیصلے کی تائیدکی بلکہ مبارکبادبھی دی۔15فیصدلوگوں نے کہا کہ دیرسے فیصلہ کیا ہے۔ 10 فیصد لوگوں نے کہاکہ غلط وقت پرفیصلہ کیا ہے 5 فیصد لوگوں نے کہا کہ بُرافیصلہ ہے۔ اتنی بڑی تعدادمیں ردعمل آیاکہ میں حیران رہ گیاکہ کس طرح لوگ میری ذات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اگرچہ بہت بڑی تعدادمیں لوگوں نے مبارکبادکے ساتھ ساتھ اس فیصلہ کوسراہااوربہت بڑی تعداد میں لوگوں نے مختلف ردعمل دیا۔ پھربھی میں نے فیصلہ کیاکہ میں اپنے چاہنے والوں کوبتاؤں کہ میں تحریک انصاف میں کیوں شامل ہوا؟بہت عرصہ محترمہ بے نظیربھٹواورنوابزادہ نصراللہ خان کے انتہائی قریبی ساتھی کی حیثیت سے سیاسی جدوجہدکی جیل یاتراکی اورجلاوطنی بھی۔ ARDکے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی حیثیت سے بھرپورسیاسی جدوجہد کی۔
آصف زرداری کے ساتھ بھی بہت قربت رہی۔ ان کی قیدکے دوران لاہور، اسلام آباد اورکراچی تمام پیشیوں پرحاضری دیتا رہا۔نیویارک اوردبئی میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کو اقتدار ملا توسازشیوں نے ایسے جال بُنے کہ آخرکاربغیرکسی لڑائی جھگڑے اوربیان بازی کے اقتدارکے ہوتے ہوئے 2012ء میں پیپلزپارٹی چھوڑ دی۔ پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیااس لئے توکافی لوگ سمجھتے رہے کہ میں ابھی تک پی پی پی میں ہوں البتہ پیپلزپارٹی کے اہم لوگوں کو علم تھاکہ میں اب ان کا حصہ نہیں ہوں۔کئی سال کالم لکھے لیکن سیاست کوکبھی خیربادنہیں کہا۔کافی عرصے سے سوچ وبچارچل رہی تھی کہ خاموش سیاست کی بجائے سرگرم سیاست کی جائے۔
کبھی کوئی مسلم لیگ(ن)کانام لیتاتھاتوکوئی پی پی پی میں واپسی کی بات کرتاتھا۔بے شماردوست تحریک انصاف کانام لیتے تھے۔ حکومتوں میں سیاسی لوگ ”رُل“ جاتے ہیں اس لیے ڈررہاتھاکہ حکومتی پارٹی میں گئے توایسانہ ہوکہ عزت سادات بھی جاتی رہے لیکن تحریک انصاف میرے لیے Natural پارٹی تھی، کیونکہ PPPچھوڑی تھی اورمسلم لیگ(ن)کی قیادت کے خلاف بے شمارریفرنس فائل کیے تھے اوراسی وجہ سے کئی ماہ کی جلاوطنی بھگتی تھی۔یہ سوچ کرمخدوم خسروبختیاراورفوادچوہدری کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کا عندیہ دے دیا۔ مخدوم خسرو بختیار ایک سیانے باپ کے بیٹے ہیں، ان کے والد مرحوم مخدوم رکن الدین نے ہمیشہ میری سرپرستی کی تھی میں نے ان سے اپنی زندگی میں بہت کچھ سیکھااس لیے خسرومیاں نے مجھے باربارکہاکہ پھربھی سوچ لوپھربھی سوچ لوسوچنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہے کہ عمران خان اورتحریک انصاف سے بہترکوئی چوائس نہیں۔اس طرح فوادچوہدری نے ہمیشہ کہاکہ ملک میں عمران خان کاکوئی متبادل نہیں اورتحریک انصاف میں کام کرنے کی بہت گنجائش ہے۔
ان تمام حالات کے بعدمیں نے بغورجائزہ لیاتومیں نے عمران خان کی قیادت کوپرکھناشروع کیا،جس کے بعدمیں اس نتیجے پر پہنچاکہ ملک میں 50سال پہلے بنی ہوئی پرانی پارٹیوں کادورختم ہوگیا، اگرچہ تحریک انصاف کو 20سال ہونے کے قریب ہیں، لیکن نوجوان نسل اس پارٹی سے وابستہ ہے۔ عمران خان احتساب پریقین رکھتے ہیں اوراسی میں ملک کی بقاء اورخوشحالی سمجھتے ہیں کرپشن کوخرابیوں کی جڑاس لیے کہتے ہیں کہ لوٹ مارکے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ہر سال قرضوں پرسوددیناپڑتاہے۔ ملکی دولت باہرچلی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ڈالربڑھ جاتاہے اور پھر ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ عمران خان ایماندار انسان ہے۔اس کو دولت سے کوئی غرض نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی ہرخواہش پوری کر دی۔ اس کے ہر منصوبے کا مقصد ملکی فلاح ہے۔
آج عمران خان حکومت کو تقریباً 3 سال ہونے والے ہیں میں نے حکومت کے منصوبے اورعزائم کودیکھناشروع کیاتواندازہ ہواکہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی گئی۔وقتی فائدہ حاصل نہیں کیاگیاماضی کی حکومتوں نے اپنے مفادکیلئے مصنوعی طورپرڈالرکی قیمت بڑھنے نہیں دی جبکہ موجودہ حکومت نے حقائق کے مطابق ڈالرکی قیمت مقررکی اورجس کانتیجہ یہ ہے کہ استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ ٹیکسٹائل اورکنسٹرکشن انڈسٹری پر بھرپور توجہ دے کر کاروبار کو آگے بڑھایا، اسی طرح امپورٹ کی بجائے ایکسپورٹ پر توجہ دی۔ جمہوری اداروں کومضبوط بنانے کیلئے ہرہفتے کابینہ کااجلاس بلایا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ”مشاورت“ کاعمل شروع کیا گیا۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کہاکرتے تھے کہ جمہوریت میں ہی خوشحالی ہے اس لیے جمہوریت کومضبوط بناناچاہیے اورجمہوری عمل کوآگے بڑھاناچاہیے۔میں نے دیکھاکہ عمران خان جمہوریت پرمکمل یقین رکھتے ہیں۔ فواد چوہدری سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ دانشوربھی ہیں اورلگی لپٹی کی بجائے صاف بات کہتے ہیں ان کو خوشدلی کے ساتھ رکھناہی سب سے بڑا ثبوت ہے کہ صرف تعریف کرناہی معیارنہیں، بلکہ صحیح بات کرنااصل بات ہے۔ میری زندگی کاریکارڈہے اورمیرے سارے دوست اس بات کے گواہ ہیں کہ میں ”سیاستدان اور وکیل“ ہونے کے باوجودجھوٹ نہیں بولتا۔یہی خوبی میں نے عمران خان میں اپنے سے بڑھ کردیکھی۔ان کو کوئی پروا نہیں کہ سچ بولنے سے کوئی نقصان ہو گا۔ عمران خان کو صرف ملکی مفاد عزیز نظر آیا۔ بدقسمتی سے اپوزیشن نے ان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی لیکن عمران خان Fighter ہونے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکرسامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں جمہوری عمل بہت مرتبہ de-rail ہوا،جبکہ بعض دفعہ گڑبڑکی شکل بھی اختیارکی۔میری سوچی سمجھی رائے رہی ہے کہ جمہوری حکومت اورتمام ادارے ایک سوچ کے تحت کام کریں۔ ماضی میں اس کے برعکس اداروں کو نیچا دکھایا جاتارہا، حالانکہ ادارے ایک شخص کانام نہیں ہوتے، بلکہ زیادہ انفارمیشن اورتجربہ ہوتاہے، جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔عمران خان کاساتھ دینے کی یہ بھی وجہ بنی کہ انہوں نے تمام اداروں کوساتھ ملاکرکام کرناشروع کیا اور آج تک جاری ہے۔ اس طرح بیرون ملک رہنے والے پاکستانی کبھی ایسے لیڈرکاساتھ نہیں دیتے جولوٹ مارکرنے والاہو۔ماضی میں بیرون ملک پاکستانیوں کوبہت لوٹاگیاجبکہ آج حالت یہ ہے کہ پاکستانی بہت بڑی تعدادمیں پیسے بھیج رہے ہیں، جس سے ملکی معیشت مستحکم ہورہی ہے بیرون ملک پاکستانی جمہوریت اورخوشحالی کاوسیع تجربہ رکھتے ہیں اس لئے جب وہ عمران خان پراعتمادکرتے ہیں تومیرے لیے تحریک انصاف میں شامل ہونے کافیصلہ کافی آسان ہوگیا۔
تحریک انصاف میں شامل ہوکراپنی سیاسی زندگی کے 30سال سے زائد عرصہ کے تجربے کو Contribute کرنا چاہتا ہوں۔اس یقین کے ساتھ کہ عمران خان کی قیادت میں کرپشن سے پاک ملک بنائیں گے۔ ”احتساب سب کیلئے“کے نعرہ کویقینی بنائیں گے۔ملک کوغلامی سے نجات دلائیں گے۔مہنگائی اوربیروزگاری کاخاتمہ کرینگے۔ جمہوری اداروں کومضبوط بنائیں گے اداروں کو آزاد اورخودمختاربناتے ہوئے انکو ساتھ لیکر چلیں گے۔ کاروباری حضرات کوتحفظ دینے کے ساتھ ساتھ کاروبار کو ترقی دیں گے۔سرکاری ملازمین کوآزادی سے کام کرنے کاموقع دینگے۔”عدالتیں انصاف کریں گی سب کیلئے“ کویقینی بنائیں گے۔امریکہ سمیت تمام ملکوں کے ساتھ برابری اورعزت والے تعلقات قائم کریں گے اور ایک ”خوشحال پاکستان“ کے خواب کوعملی جامہ پہنائیں گے۔