یومِ خواتین اور ہم (2)

یومِ خواتین اور ہم (2)
یومِ خواتین اور ہم (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکہ جدید جمہوریت کا چیمپئین ہے، دنیا کی واحد سپریم ملٹری پاور ہے اور خلاؤں کو تسخیر کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ آنے والے دو تین عشروں میں وہ مریخ پر انسانی بستیاں بسا دے گا۔ اس پراجیکٹ کی سٹڈی ہو رہی ہے اور ناسا (NASA) اس پر سختی سے عمل کرنے کی طرف گامزن ہے۔ اس کا ایک روبوٹ Perseverance مریخ کی سطح کی گرداوری کر رہا ہے اور جو تصاویر زمینی سٹیشن کو بھیج رہا ہے وہ اس حوالے سے بہت حوصلہ افزا ہیں کہ اس سیارے پر چند ارب سال پہلے ہماری طرح کے انسان بستے تھے۔ پھر وہاں قیامت برپا ہو گئی اور وہاں کے سمندر، دریا اور جھیلیں جہاں تھیں، وہیں منجمد ہو کے رہ گئیں۔ زمینی انسان ناسا ہیڈکوارٹر میں جن مریخی تصاویر کو ڈی سائفر کر رہا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پانی بھی تھا، ہوا بھی تھی، سبزہ و گل بھی تھے اور ابنِ آدم اور بنتِ حوا بھی تھیں۔ ہماری زمین (Earth) پر رہنے والا آج کا انسان سوچ رہا ہے کہ جوہری قوت نے کرۂ ارض پر قیامت کے آثار کی خبر تو دے دی ہے۔ آج نہیں تو ’کل‘ قیامت آئے گی، کسی اور کرّے پر نیا آدم پیدا ہو گا اور نیا پیغمبرِ خاتم الزماں بھی آئے گا۔ برسوں پہلے مولانا روم نے کہا تھا:


ہر کجا ہنگامہ ء عالم بَود
رحمت الالعالمینےؐ ہم بَود
(جب کبھی اور جہاں کہیں بھی ہنگامہ ء عالم برپا ہوگا، وہاں رحمت الالعالمینؐ  بھی ہوگا)


ناسا نے جو اگلا مشن مریخ پر بھیجنے کا التزام کیا ہے اس میں خاتون / خواتین خلا نورد بھی شامل ہوں گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی خلائی سائنس دان مریخ پر مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھیج کر یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ کیا زمین کے آدم و حوا، مریخ کو پھر سے آباد کر سکیں گے۔ علامہ اقبال کی فراست کی داد دیجئے کہ اس نے ایک صدی پہلے کہہ رکھا تھا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں اور مریخ پر اترنا تو گویا عشق کا نیا امتحان ہو گا اور اقبال نے یہیں پر بس نہیں کی تھی، یہ بھی فرمایا تھا:
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد


قصور وار غریب الدّیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد


اس ضمن میں اقبال نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے لیکن ڈرتا ہوں کہ موضوع سے دور نکل جاؤں گا۔ امریکہ نے خواتین کا دن منانے کا جو اہتمام کیا ہے اس میں نئے سیاروں پر بستیاں بسانے میں خواتین کا کردار تو شامل ہے ہی، اس نے نصف صدی پہلے اپنی خواتین کے پاؤں سے وہ زنجیریں بھی اتار پھینکی تھیں جن کو آج تک مختلف ممالک نے حرزِ جاں بنایا ہوا ہے…… میں امریکہ کی مسلح افواج میں عورتوں کے حقوق کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانی چاہتا ہوں۔


امسال خواتین کا عالمی دن منانے سے پہلے اس نے اپنی مسلح افواج میں خواتین پر لگائی گئی ان پابندیوں کو ختم کر دیا ہے جو گزشتہ امریکی نسل نے لگائی تھیں۔ آج کے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ وہاں دو خواتین کو چار ستاروں والے جرنیلوں کا منصب دے دیا گیا ہے۔ یہ خبر دراصل پرانی ہے…… صدر ٹرمپ کے دور میں پینٹاگون نے ان دونوں خواتین کے لئے چوتھے ستارے کی عطائیگی کا کیس وائٹ ہاؤس میں بھیجا تھا جسے ٹرمپ نے بوجوہ Pendکر دیا۔ اب جوبائیڈن نے اس کی منظوری دے دی ہے اور وہ خواتین باقاعدہ ’فور سٹار جنرل‘ بن گئی ہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ان کا تعلق میڈیکل کور سے نہیں بلکہ باقاعدہ پروفیشنل شعبوں سے ہے۔ ایک کا تعلق ائر فورس سے ہے تو دوسری کا آرمی سے۔ دونوں پروفیشنل کمانڈر ہوں گی…… جنرل جیکولین ’ٹرانسپورٹ نیٹ ورک‘ کی کمانڈر اور جنرل لارا، سادرن کمانڈ کی کمانڈر!…… ان دونوں کی تصاویر دیکھیں۔ وہ گل بدن بھی ہیں، زہرہ وش بھی اور سیم تن بھی…… ماشاء اللہ دونوں صاحبِ اولاد ہیں اور اپنے اپنے شوہروں کے وظیفہء زوجیت کی پابند بھی۔


آج امریکی افواج میں خواتین کی کل تعداد 1,27,000 ہے جن کا تعلق آرمی اور نیشنل گارڈ سے ہے۔ فوج کے یہ دونوں شعبے پہلے مردوں کی ’جاگیر‘  سمجھے جاتے تھے لیکن آج کی امریکی عورتیں اپنے تمام تر نسوانی حقوق کے ساتھ ان میں ’جلوہ گر‘ ہیں۔ 1971ء تک کسی عورت کو شادی اور یونیفارم میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تھا۔اگر دورانِ سروس کوئی خاتون حاملہ ہو جاتی تھی تو اس کو فوراً سروس سے ڈسمس کر دیا جاتا تھا۔1972ء میں ایک خاتون بیرسٹر مس رُتھ باڈر (Ruth Bader) نے سپریم کورٹ میں وزارتِ دفاع کے ان احکامات کو چیلنج کر دیا اور دلیل دی کہ یہ خواتین کے نسوائی حقوق کے منافی قانون ہے، اس کو منسوخ کیا جائے۔ چنانچہ جب اس کیس کا فیصلہ خواتین کے حق میں آیا تو مسلح افواج میں عورتوں کا حصہ جو 2فیصد ہوتا تھا، آج بڑھ کر 15فیصد تک چلا گیا ہے۔ اس طرح جب شادی کا یہ فلڈ گیٹ کھل گیا تو خواتین کا اگلا مطالبہ یہ تھا کہ ان کے نومولودوں کو دورانِ سروس اپنی چھاتیوں سے دودھ پلانے کی اجازت دی جائے۔ اس پر مرد فوجیوں نے بہت شور مچایا لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ وزارتِ دفاع کو شادی شدہ خواتین کی وردی میں یہ تبدیلی کرنی پڑے گی کہ اوپر کی فوجی جیکٹ کے اندر جو بنیان (Vest) ایشو کی جائے اس میں سامنے سے ایک زپ لگا دی جائے۔ دودھ پلانے کی عمر اڑھائی سال ہے اور ان اڑھائی برسوں میں نومولود کی ماں کو ڈیوٹی کے دوران ایک گھنٹے کا وقفہ دیا جائے اور فیلڈ میں بھی ایک الگ شامیانہ بنا کر اس میں اس ماں کو اپنے نومولود کو دودھ پلانے کا وقفہ دیا جائے…… وہ اپنی بنیان کی زپ کھولے اور بچے کو دودھ پلائے۔


پچھلے دنوں امریکی خواتین پر فوج کی طرف سے لگائی گئی بعض پابندیوں کو بھی ختم کرنا پڑا…… مثلاً کمیشنڈ آفیسر خواتین کو مردوں کی طرح کی پی کیپ پہننے کی اجازت، دوران ڈیوٹی (سٹاف ڈیوٹی) اپنے ہاتھوں کو جیبوں میں ڈال کر کھڑا ہونے یا چلنے پھرنے کی اجازت، کانوں میں Topsپہننے کی اجازت، سر کے بالوں کی چوٹی بنا کر کمر تک لہرانے کی اجازت، گلے میں طلائی زنجیر پہننے کی اجازت، گھنگھریالے بالوں کو نہ کاٹنے اور مینڈھیاں گوندھنے کی اجازت اور اس تصور کو ختم کرنے کی اجازت کو جب کوئی خاتون کسی پروفیشنل آرم / سروس میں فیلڈ میں آپریٹ کر رہی ہو تو اس کو عورت نظر نہیں آنا چاہیے بلکہ مرد کی شبیہ کا گمان گزرنا چاہیے۔ 
امریکی وزارتِ دفاع نے دو تین ایسی پابندیاں بھی ختم کر دیں جن کا مطالبہ ایک عرصے سے خواتین نے کر رکھا تھا۔

ان میں سے ایک یہ تھی کہ خواتین سولجرز کو لپ سٹک استعمال کرنے کی اجازت دی جائے اور دوسری یہ کہ نیل پالش لگانے پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے…… یہ دونوں مظاہر خواتین کے لئے خاص سمجھے جاتے ہیں …… کانوں میں آویزے، ہاتھوں میں کنگن / چوڑیاں، ہونٹوں پر لپ سٹک اور ناخنوں پر نیل پالش…… کئی برس تک اس موضوع پر بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ حال ہی میں یہ معلوم ہوا کہ جب سے وزارتِ دفاع نے ان مظاہر کو ختم کرنے پر حیص بیص سے کام لیا اور بخوشی آمادگی ظاہر نہ کی تو تب سے امریکی افواج میں عورتوں کی انڈکشن (بھرتی) کا گراف نیچے گر گیا۔ چنانچہ پچھلے دنوں (فروری 2021ء) وزارت دفاع نے نسوانی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ البتہ ہاتھوں کے کنگن کا کیس ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔ لپ سٹک اور نیل پالش کی اجازت دے دی گئی ہے اور شرط یہ رکھی گئی ہے کہ ان کے رنگ شوخ نہ ہوں۔


آپ نے دیکھا ہوگا ہماری مشرقی خواتین شوخ رنگوں کی لپ سٹک اور نیل پالش لگانے میں کافی ’فیاض طبع‘ واقع ہوئی ہیں لیکن مغربی خواتین ہلکے رنگوں پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی ماہ فروری (2021ء) میں خواتین سولجرز نے ایک اور معرکہ بھی جیت لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے فیلڈ میں آپریٹ کرنے والی خواتین کو بالوں کا جوڑا بنا کر ان کے اوپر ہیلمٹ پہننا پڑتا تھا، خواتین کا استدلال تھا کہ جب وہ جوڑے کے ساتھ ہیلمٹ زیبِ سر کرتی ہیں تو ’فائرنگ پوزیشن“ اختیار کرتے ہوئے ہیلمٹ کی پلاسٹک کی شفاف سکرین آنکھوں سے سرک کر نیچے گر جاتی ہے اور بالوں کا جوڑا اس گراوٹ کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ اس پر باقاعدہ ایک کمیشن بٹھایا گیا جس نے خواتین کے استدلال کو درست قرار دیا اور وزارتِ دفاع نے جوڑا ختم کرکے پونی بنانے کی اجازت دے دی۔ یہ پونی 6انچ بھی ہو سکتی ہے اور اس سے لمبی بھی۔ جب خاتون سولجر میدانِ جنگ میں اترے تو 6انچ کی پونی کے اوپر ہیلمٹ پہنے لیکن اگر سٹاف ڈیوٹی پر ہو تو چوٹی کی لمبائی مشرقی خواتین کی طرح کمر تک بھی لٹکائی جا سکتی ہے…… تفنن برطرف! میں سوچ رہا تھا کہ اگر امریکی فوج میں کوئی مسلمان خاتون یہ مطالبہ بھی کرتی کہ اس کو ایک کی بجائے دو چوٹیاں رکھنے کی اجازت دی جائے تو شائد وہ بھی مل جاتی…… پرانی انڈین فلم ’پوستی‘ یاد آ رہی ہے:


 مائے میریے نی مینوں بڑا چاء
تے دو گتّاں کر میریاں 
امریکی (اور مغربی) خواتین نے اپنے ’بنیادی حقوق‘ کا حوالہ دے کر جو اوراضافی آزادیاں اپنے سماج سے مانگی ہیں، ان کی بحث طویل ہے۔ میں نے صرف مسلح افواج میں امریکی خواتین سولجرز کی پابندیوں کے خاتمے کی بات کی ہے۔اب یہ پابندیاں اور قدغنیں بہت حد تک ختم کی جا چکی ہیں اور مغرب کی صنفِ نازک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئی ہے!(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -