دھماکہ ہو گیا، انجام کیا ہوگا؟ 

دھماکہ ہو گیا، انجام کیا ہوگا؟ 
دھماکہ ہو گیا، انجام کیا ہوگا؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سیاسی بحران کی شدت تو وفاقی سطح پر تھی، لیکن ہیجان صوبائی سطح پر بڑھ گیا۔ سندھ میں تو پیپلزپارٹی اور اپوزیشن کی توتکار چل ہی رہی تھی، تاہم پنجاب میں قدرے سکون تھا کہ کپتان نے اپنے نئے کھلاڑی وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر ویسا ہی اعتماد کیا، جیسا وہ کرکٹ کے میدان میں منصور اختر پر کرتے تھے، اب پنجاب میں دبے جذبات ابھرے تو سردار عثمان بزدار نے پورے خلوص کے ساتھ وزیراعظم کو اپنے استعفیٰ کی پیشکش کر دی جو کپتان کے مزاج ہی کے مطابق منظور نہیں کی گئی اور انہوں نے اپنے وسیم اکرم  پلس کو کام جاری رکھنے کی ہدائت کر دی اور وہ یہ شاباش پا کر سرگرم ہوئے اور انہوں نے بھی اپنے طور پر قومی اسمبلی کے اراکین سے ملاقاتیں شروع کردین، ان کی کوشش اب یہ ہے کہ اپنے کپتان کی توقع پر پورا اتریں اور کم از کم ایک اینڈ کو سنبھالے رہیں، لیکن واقعات تو یہ بتاتے ہیں کہ اپوزیشن نے اگر وفاق میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد داغ ہی دی ہے تو پنجاب میں بھی سب اچھا نہیں اور یہاں وزارت اعلیٰ سے محروم ہونے والے عناصر اور چند مراعات سے مایوسی کا شکار لوگ یکایک سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان حضرات سے جن کا باقاعدہ تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر رابطے تو شروع ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک بات نہیں بنی، کیونکہ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین گروپ اور چودہ افراد پر مشتمل صوبائی گروپ کا مطالبہ سردار عثمان بزدار سے خلاصی ہے، اس سے کپتان نے انکار کر دیا کہ خود ”ہٹ وکٹ“ ہونے کا یقینی خطرہ ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے ان باغی اراکین کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وزارت اعلیٰ کی توقع میں دباؤ ڈال رہے ہیں جہاں تک علیم خان کا تعلق ہے تو ان کا شکوہ یہ ہے کہ  2018ء کے انتخابات کے بعد ان کو ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا، لیکن ان پر بوجوہ سردار عثمان بزدار کو ترجیح دی گئی، جبکہ ان کو نیب کے چکر میں الجھایا گیا، تاہم کپتان کے کھلاڑی اور اب ساڑے تین سال میں پیدا سردار عثمان بزدار کے حامی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، دوسری طرف چودھری برادران نے بھی علیم خان کی مخالفت کی ہے کہ ان کو عثمان بزدار سے بڑا شکوہ نہیں، بلکہ آرام بہت ہے کہ ان کی حیثیت ہی تسلیم نہیں کی جاتی، بات بھی مانی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کپتان جو دعویٰ کر رہے ہیں، اس کے لئے ان کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیا وہ اپنے اتحادیوں کے بل بوتے پر اور جہانگیر ترین کو خلوص کا دانہ ڈال کر مطمئن ہیں کہ یہ حضرات ان کی حمائت کریں گے حالانکہ اطلاع تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے دس اراکین نے ٹکٹ کی یقین دہانی پر مسلم لیگ (ن) کو مکمل وفاداری اور تعاون کا یقین دلا دیا، ایسا ہی آٹھ دیگر اراکین نے زرداری صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ ان میں ”سابق جیالے“ ہیں اور ندیم افضل چن نے بھی ان کی گارنٹی دی اور اب وہ بھی اپنے تعلقات آزمائیں گے۔


اب ذرا پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی بات کر لیں کہ پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب رکن کو پارٹی سربراہ کی ہدائت کے خلاف ووٹ دینے پر نااہلی کا سامنا ہوگا اور قومی اسمبلی میں رائے شماری ”بندوں کو گن“ کر ہوگی کہ اس جمہوریت میں تو بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے، میں یہ عرض کروں کہ اس مسئلہ پر کپتان اور شیخ رشید بھولے بادشاہ کا کردار ادا کر رہے ہیں، اپوزیشن نے اس کا حل ڈھونڈ رکھا ہے اور فیصلہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عبوری حکومت ہی بنے گی اور یہ عبوری حکومت تین ماہ کی مقررہ مدت کے حوالے سے عام انتخابات کی راہ ہموار کرے گی اور اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔ وفاق میں عدم اعتماد پیش کر دی گئی، اس پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ پنجاب میں یہی عمل ہوگا کہ یہاں بھی مسلم لیگ (ن) کے اراکین زیادہ ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت مسلم لیگ(ق) اور الیکٹ ایبلز کے سہارے ہے اور یہ سب الیکٹ ایبلز بزدار مخالف اور اکثر جہانگیر ترین گروپ میں ہیں، اب کپتان نے جہانگیر ترین سے توقع باندھی ہے اور ان کو دوستی یاد کرائی، لیکن جہانگیر ترین ذاتی رنجش کے علاوہ اپنے گروپ کے دباؤ میں بھی ہیں، ان ارکان نے سخت ترین حالات میں ان کا ساتھ دیا تھا اور بعض انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بھی بنے۔ ان کے کام رک گئے تھے۔ ان کو ترقیاتی فنڈز سے محروم کر دیا گیا تھا، اس لئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ سب رائے شماری کے وقت تحریک عدم اعتماد کے حق میں کھڑے نہ ہوں، اب سرکاری حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے حضرات کو غیر حاضری پر آمادہ کیا جائے کہ 172اور اس سے زیادہ کی گنتی پوری کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے، بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایوان میں حاضر اراکین کی اکثریت بھی یہ فیصلہ کر سکتی ہے، لیکن آئینی اور قواعد کی وجہ سے شاید یہ ممکن نہیں کہ اعتماد کا ووٹ تو ایسے ہو سکتا ہے لیکن عدم اعتماد کو ایوان کی کل تعداد کے نصف سے زیادہ ووٹوں کی ضرورت ہے اور اسی لئے کپتان اور ان کے کھلاڑی مطمئن نظر آتے ہیں،

ویسے جب کپتان چودھریوں سے ملنے کے بعد بہادرآباد بھی تشریف لے جاتے ہیں تو پھر دباؤ سے انکار کرنا ذرا مشکل سا لگتا ہے کہ یہ اپوزیشن ہی کی حرکت ہے کہ ان کو حلیف اس طرح یاد آئے ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے جو دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا، یہ بھی کوئی پہلی بار تو نہیں، وہ تو پہلے ہی بہت بڑی بات کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کو نکالا تو وہ اور بھی خطرناک ہوں گے اور یہ تڑی جنرل طور پر لگائی گئی تھی اور اس پر بہت بات بھی ہو چکی ہوئی ہے۔
ایک بات یاد رہے کہ کپتان نے ابھی کل ہی پھر کہا کہ پاک فوج ان کے ساتھ ہے، اگرچہ لفظ حکومت استعمال ہوا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ فوج ان چوروں اور ڈاکوؤں کا ساتھ نہیں دے، میں دکھ اور افسوس کے ساتھ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ یہ شیخ رشید اور خود کپتان ہیں، جو فوج کا ذکر اسی طرح کھل کر کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی بات نہیں کرتی، ہر کوئی اشاروں سے اپنا مقصد بیان کرتا ہے وزیراعظم تو فوج کی باقاعدہ مداخلت قبول کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اسے احسن طریقے سے آئینی حیثیت کے حوالے سے بھی بیان کر سکتے ہیں، میں خود اجتناب کرتا ہوں، میرے خیال اور یقین کے مطابق آئین میں فوج کا کردار متعین ہے اور پاک فوج وطن کی فوج ہے، وہ اسی کے مطابق اپنے فرائض انجام دے گی اور شاید اب یہی وقت آ گیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ”عوامی پاور شو“ بھی کر دیا ہے اور مولانا فضل الرحمن نے 23مارچ والا مارچ بھی ملتوی نہیں کیا، اگرچہ آئین اور قواعد کے مطابق اب اجلاس 14روز کے اندر ہونا ہے اور جو  22تک لازم ہے۔ آگے اللہ جانے کیا ہوگا، حالات مشکل ہی نہیں مشکل ترین ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -