پولیس سمیت تمام اداروں میں استحکام لانے کی ضرورت

پولیس سمیت تمام اداروں میں استحکام لانے کی ضرورت
پولیس سمیت تمام اداروں میں استحکام لانے کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 
صوبائی دارالخلافہ جسے عدالت عالیہ،بیوروکریسی سیاسی سماجی ثقافتی تجارتی،ریونیو بلکہ ہراعتبار سے نمایاں مقام حاصل ہے یہاں پر استحکام کو پورے پنجاب کا امن تصور کیا جاتا ہے اگر یہاں صورت حال خراب ہو تو پنجاب کی حکومت بھی ڈانواں ڈول تصور کی جاتی ہے بلکہ آج تو پنجاب کی وجہ سے وفاق بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اپوزیشن کے مضبوط سیاسی گٹھ جوڑاوروزیر اعظم کے خلاف پیش ہونے والی تحریک   عدم اعتمادکو پنجاب کی خراب صورت حال اور ”بیڈ گورننس“قرار دیا جا رہا ہے حقیقت میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اداروں میں عدم استحکام اور امن و امان کی صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر پنجاب پولیس اور بیوروکریسی بھونچال کا شکار ہے،پنجاب اور وفاق میں اگر آج صورت حال انتہائی خراب قرار دی جاتی ہے تو اس کے ذمہ دار پنجاب کے آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری کو مورد الزام قرار نہیں دیا جاسکتابلکہ سیاستدان خود ہیں، پنجاب حکومت کی ناقص حکمت عملی کے پیش نظراب بھی بیوروکریسی سمیت فیلڈ میں بہت سارے ایسے افسران تعینات ہیں جن پر سابق حکمرانوں کا لیبل لگا ہوا ہے اور وہ ان کے احسانات کے مر ہون منت ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت کو کسی صورت بھی قبول کر نے کو تیار نہیں ان افسران نے کسی نہ کسی سفارش کے بل بوتے اور چور دروازے سے فیلڈ میں تعیناتیاں تو حا صل کر لی ہیں مگران کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے ان میں زیادہ تر تو ویسے ہی نا اہل ہیں،کسی کے پاس فیلڈ کا تجربہ نہیں اور کئی اچھے کمانڈر یا لیڈر کی خوبیوں سے نا آشنا ہیں ہیں ایسے افسران کی تعیناتیوں سے پی ٹی آئی کا پنجاب میں ستیا ناس ہی نہیں جنازہ نکل چکاہے، سانحہ پی آئی سی اور ساہیوال جیسے واقعات پیش آنے کے بعد ذمہ دار اداروں نے جو رویہ اپنایا وہ وفاق اور پنجاب دونوں کے لیے نیک شگون نہیں تھا ایسے واقعات سے تحریکیں جنم لیتی ہیں اور حکومتوں کا صفایا ہو جا تا ہے ریاست میں امن قائم کرنے کا ضامن ادارہ محکمہ پولیس ہے جس میں نکھٹوؤں نے جگہ لے کراس ادارے اور حکومت کا ستیا ناس کرنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔ فیلڈ میں کام کرنے والے ایڈیشنل آئی جی غلام محمود ڈوگر، ڈی آئی جی راجہ رفعت مختار،ڈی آئی جی طیب حفیظ چیمہ،ڈی آئی جی کامران عادل۔ڈی آئی جی امین بخاری،ایس ایس پی غازی صلاح الدین،ایس ایس پی سید علی ناصر رضوی،،ایس ایس پی سید زیشان رضا اورایس ایس پی فیصل شہزاد کو دفاتر میں بٹھا کر ان کی پر فارمنس اور صلاحیتوں کو ضائع کیا جارہا ہے،انھیں فیلڈ میں، جبکہ جنوبی پنجاب سے خالی ہونیوالی سیٹ پر ایڈیشنل آئی جی علی عامر ملک،یاشہزاد سلطان کو تعینات کیا جانا چاہیے  پاک فوج کی طرح سویلین اداروں سے بھی سیاست کا مکمل خاتمہ ہو نا چاہیے، ایک سوال ہے جو ہمیشہ دماغ کو جھنجھوڑتا ہے کیا وجہ ہے پولیس اچھے اقدام اور قربانیوں کے باوجود عوام میں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکی، جس کی وہ حق دار ہے؟ میری نظر میں پہلی وجہ پولیس کا براہ راست امن و امان قائم رکھنا جس میں جلسے جلوس، دوسری وجہ سیکورٹی انتظامات تیسری اہم وجہ جرائم کا ہونا ہے۔امن و امان کے حوالے سے سب سے زیادہ عوام سے آمنا سامنا رہتا ہے جس کی مثال آپ اس طرح بھی لے سکتے ہیں ملک میں کوئی بھی مسئلہ ہو، پانی، بجلی، گیس، تنخواہوں، جیسے مسائل میں عوام اگر احتجاج کرتے ہیں، روڈ بلاک وغیرہ تو ان کو منتشر کرنے کے لئے پولیس ہی فرنٹ لائن میں کھڑی ہوتی ہے، کبھی کبھی تو آنسو گیس لاٹھی چارج بھی کرنا پڑ جاتا ہے جس سے عوام کے دل میں پولیس کے لیے ایک خلش پیدا ہوتی ہے۔اس کے علاوہ جرائم کی روک تھام کے لیے ناکوں پر عوام کی چیکنگ پر مامور عملے کا رویہ اچھا نہ ہونا بھی نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔ تھانوں میں شکایات کے سلسلے میں جانے والے سائلین کو مطمئن نہ کرنا،  ان کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک بھی اس نفرت کا موجب بنتا ہے۔حقیقت میں پولیس اور عوام کے مابین براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ پولیس سے عوام کو اکثر شکایات ہی رہی ہیں جن کو دور کرنے کی غرض سے آئی جی پولیس راؤ سردار علی خان اور لاہور پولیس کے سربراہ فیاض احمد دیو نے چارج سنبھالتے ہی عوام اور پولیس کے درمیان دوریاں ختم کرنے کے لئے ضروری اقدامات کیے ہیں جن میں سائلین کی داد رسی، ایف آئی آر کا فوری اندراج، تفتیش میں بہتری، تھانہ کلچر میں تبدیلی، نئی پولیس ٹریننگ پالیسی، عوامی رابطہ مہم، عوام کی رہنمائی کے لئے تھانوں کی سطح پر پولیس گائیڈز تعینات کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ان اقدامات کی وجہ سے پنجاب بالخصوص لاہور پولیس عوام میں کافی حد تک اعتماد کی فضاء بحال کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ جس کا کریڈٹ آئی جی پولیس اور لاہور پولیس کے سربراہ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ آئی جی پولیس نے سانحہ سیالکوٹ اور خانیوال میں کسی ایک اہلکار کو بھی معطل تو درکنار تبدیل تک نہیں کیا  تمام تر دباؤ کے باوجود اپنی فورس کے ساتھ کھڑے نظر آئے ہیں اور لاہور پولیس کے سربراہ نے بھی پی ایس ایل سمیت تمام اہم موقعوں پر استقامت اور جوانمردی سے کام کرتے ہوئے لاہور میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا ہے سی سی پی ا  ایک بہت ہی اچھے اور نیک سیرت خدا ترس انسان ہیں، جن کے دل میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ ہے۔ جو چاہتے ہیں پولیس اور عوام ایک پیج پر آ جائیں، ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھیں، مل کر کام کریں تاکہ مستقبل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پنجاب بالخصوص لاہور شہر کو امن کا گہوارہ بناتے ہوئے ہمیشہ کے لیے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے۔مزید یہ کہ قوانین کو بہتر بنانے کے لئے اور ان کے بہتر نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ منافقانہ رویوں کو ترک کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوانین نافذ کرنے میں پولیس کا بہت گہرا عمل دخل ہے لیکن معاشرتی رویے اور شہریوں کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر شہری اپنے حق کے حصول کے لیے رشوت نہ دیں تو یقیناً معاشرے میں پولیس کے اس کردار کو جو ان کے منفی پہلو کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، بہتر بنانے میں زیادہ سے زیادہ مدد مل سکتی ہے۔خبر ہے کہ سی آئی اے لاہور پولیس کے سربراہ  ایس ایس پی عاصم افتخارنے اپنی ٹیم میں موجود تمام کرپٹ افسرو اہلکاروں کو  فارغ کر کے سی آئی اے لاہور پولیس پر کرپشن کے لگنے والے الزامات کا کافی حد تک خاتمہ کر دیا ہے اور وہ اپنی ٹیم میں مذید نکھار پیدا کرنے کے لیے ٹیم کی کڑی نگرانی کررہے ہیں ان کا اعلان ہے کہ سی آئی اے میں کرپشن کے حوالے سے کسی شہری کو کوئی شکایت ہو وہ فوری دفتر یاان کے موبائل پر رابطہ کرسکتے ہیں،ایس ایس پی اے وی ایل ایس آفتاب پھلروان بھی اپنی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے اورکرپٹ اہلکاروں سے اسے پاک کرنے کے لیے بہت کو شاں ہیں،”کرپٹ مافیا“ کا خاتمہ کرنے کے لیے جس طرح انوسٹی گیشن  ونگ میں کارروائیاں جاری ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ آپریشنل ونگ میں ’کرپٹ ایس ایچ اوز سے لے کر ایس پی تک کا محاسبہ‘ بھی ہونا چاہیے جہاں روز بروز شکایات کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -