یہ چمن یونہی رہے گا؟محکموںکی بددیانتی سامنے کیوں نہیں آتی!

یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں اپنا اپنا راگ سنا کر اڑ جائیںگی ، اللہ میرے اس ملک کو آباد اور شاد رکھے کہ اب دوا سے بھی زیادہ دعا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، یہ اچھا ہوا کہ تحریک انصاف نے ایک بار پھر اپنی ریلی منسوخ کر دی کہ اس سے قبل پولیس سے تصادم ہو چکا تھا۔ قارئین! الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بہت کچھ جان چکے اِس لئے میں اِس موضوع (سیاست) سے گریز کرتا ہوں اور احباب حکومت کی توجہ ان امور کی طرف دلاتا ہوں جو اس محاذ آرائی کے باعث نگاہوں سے اوجھل کر دیئے گئے ہیں، چلتے چلتے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ایک بات کی طرف توجہ دلا دوں، انہوں نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا ”اب اشرافیہ کو قربانی دینا ہوگی“ ان کی یہ بات سوفیصد درست ہے تاہم شروعات گھر سے ہوں تو ہی دوسرے پیروی کرتے ہیں، ابھی تک تو اشرافیہ نے توجہ نہیں دی، ان کی کاریں ویسے ہی چلتی پھرتی نظر آتی ہیں جیسے ڈیڑھ سو روپے لیٹر والے دور میں چلتی تھیں اور یہ تب بھی سڑکوں پر ہی ہوں گی جب پٹرول تین سو روپے لیٹر (خدانخواستہ) ہو جائے گا ابھی تک اس اشرافیہ کی طرف سے قربانی کی طرف توجہ نہیں دی گئی، حالانکہ اگر یہ اشرافیہ چاہے تو ابتدا ڈالر کی قلت اور کمی کو دور کرکے کر سکتی ہے کہ ڈالر بھی اسی اشرافیہ کے پاس ہیں بلکہ اب تو مارکیٹ پر بھی ہمیشہ کی طرح اسی کا قبضہ ہے اور یہ اشرافیہ ڈالر سے بھی اپنی ہی ”عاقبت“ سنوار رہی ہے۔
تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں، آج تو میں ایک بارپھر گورننس کی بات کر لیتا ہوں، اس سلسلے میں ،مَیں کچھ پرانی باتیں بھی یاد دلاﺅں گا کہ اس وقت حکومت کی ناک کے نیچے سرکاری ،نیم سرکاری اور خود مختار اداروں / محکموں میں جو لُوٹ مچی ہے وہ بھی تاریخی ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، اب تو بات لاکھوں سے نکل کرکروڑوں اور اربوں تک چلی گئی اور جو کوئی جتنا بااختیار ہے اسی کے مطابق ”کمائی“ کر رہا ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری اور وقف املاک ان بااختیار حضرات کو شاید ”وراثت“ میں ملی ہیں اور یہ سب بندربانٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ اکابرین ملت سیاست میں الجھے ہوئے ہیں، یہ مافیاز اپنا کام کررہے ہیں اور آج کل تو ایک اور عمل بھی بہت زیر تکمیل ہے کہ ان بااختیار حکام کی اولاد اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں جاتی ہیں، یہ ان کی تعلیم کی آڑ میں منی لانڈرنگ کے عمل میں مصروف ہیں اور ان کی اولاد ان ممالک میں شہریت حاصل کرکے خاندان بھر کی آمد کا وسیلہ بن جاتے ہیں، ان کے لئے کینیڈا اول، آسٹریلیا دوم اور امریکہ تیسری حیثیت رکھتے ہیں، ان ممالک کے نظام کی تعریف کرتے ہیں، کبھی والدین سے یہ نہیں پوچھتے کہ آپ اپنے اختیارات ملک کو سنوارنے کے لئے کیوں استعمال نہیں کرتے، بلکہ یہ اولاد جب اپنے سابق گھر کو آئے تو ”ڈرتی پیپلز“ کا خطاب دے کر جلد واپسی چلی جاتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلدیاتی ادارے معطل تھے اور سربراہی بیورو کریسی کے پاس تھی، تب لاہور کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر سی ایس پی سعید احمد (مرحوم) تھے، ان کا اپنا تعلق بھی لاہور سے تھا، انہوں نے شہر کی حالت بہتر بنانے کے لئے بہت محنت کی۔ وہ اہل افسر تھے۔میں نے ان کی کارکردگی دیکھی،ان کا انداز یہ تھا کہ صبح اپنے دفتر میں میٹنگ لیتے، خود ان کے سامنے ایک رجسٹر ہوتا تھا، جس روز میٹنگ ہوتی اس تاریخ کا صفحہ کھول لیتے اور پھر جو فیصلے ہوتے ان کو یہاں تحریر کرتے اور اس کے ساتھ جس روز کام کی تکمل ہونا ہوتی۔ اس تاریخ والے صفحہ پر درج کرتے کہ فلاں کام آج مکمل ہونا ہے، یوں میٹنگ کی ابتداءفالو اپ سے ہوتی اور ترقیاتی کاموں کا معائنہ بھی اسی تاریخوں کے حوالے سے کرتے تھے۔
وزیراعظم محمد شہبازشریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کو چین کی طرف سے پنجاب سپیڈ کا خطاب ملا ، ان کی عادت تھی کہ صبح جلدی اُٹھ کر تیار ہوتے، ان کی آمد سے قبل تمام سیکرٹری اور متعلقہ حکام حاضر ہوتے تھے، اس میٹنگ میں ترقیاتی کاموں کا جائزہ لے کر فیصلے کئے جاتے، پھر وہ دورے پر نکل کھڑے ہوتے تھے اور خود موقع پر جائزہ لیتے، رپورٹنگ کے لئے مجھے بھی ان کے ساتھ جانے کا کئی بار موقع ملا ، ایک بار گندم کی خریداری کے مراکز کے معائنے کے دوران میں اکیلا ان کے ساتھ تھا لاہور سے وزیراعلیٰ کے جہاز میں سرگودھا ایئر بیس تک گئے انہوں نے راستے بھر بات نہ کی بلکہ بعض فائلیں اور اخبارات کی کلپنگ پڑھ کر احکام لکھتے چلے گئے اور سرگودھا لینڈ کرنے تک کام مکمل بھی کر لیا، واپسی میں وہ تبادلہ خیال بھی کرتے چلے آئے اور میری تنقیدی گفتگو کو بھی تحمل سے سنا، اب معلوم نہیں، ان کا یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں کہ میں نے کبھی دریافت نہیں کیا تاہم ان کے بعض احکام کو بااختیار اہل کاروں کی طرف سے نظر انداز کرنے کا شاہد ہوں اسی سے اندازہ لگایا کہ اب شاید سیاست یا ملکی اور غیر ملکی مسائل کی وجہ سے ان کی توجہ نہیں، مثال کے لئے عرض کرتا ہوں کہ ان کی ہدائت پر وفاقی حکومت نے دوبار فیصلہ کرکے محکموں کو حکم دیا کہ گریڈ ایک سے سولہ تک کے وفاقی ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دے دی جائے۔
شرط یہ تھی کہ ترقی ان کو دی جائے جن کی مدت ملازمت دس سال ہو چکی، اس حکم پر فوری عمل وفاقی وزارتوں اور اسلام آباد سیکرٹریٹ میں فوری ہو گیا، وزارتوں والوں نے اپنے گریڈ بڑھا لئے لیکن نچلی سطح کے محکموں میں اب تک ان پر عمل نہیں ہوا۔اب متروکہ وقف املاک کی سرپرستی وزارت مذہبی امور کے پاس ہے۔ وزارت کے شعبے میں فوری عمل ہوا لیکن ای ٹی بورڈ میں یہ معاملہ ایک سال سے لٹکا ہوا اور 16تک کے گریڈ والے ملازم آسمان کی طرف دیکھ کر دعا مانگتے ہیں کہ اللہ ہی ان کی سن لے، اسی طرح بعض دوسرے محکمے ہیں۔
یہ عمل اپنی جگہ، اصل حقیقت یہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے محکموں کی طرف کوئی توجہ نہیں، چنانچہ ان کی کارکردگی فائلوں اور بیانات (پریس ریلیز) تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جو سب اچھا دکھاتی ہے جبکہ ان محکموں میں ایسی لوٹ مچی ہے کہ حقائق جان کر خوف آتا ہے۔ عام آدمی کو مہنگائی تو مار رہی ہے لیکن ان محکموں کی رشوت ستانی اور کام چوری اپنی جگہ ہے۔ ہمارے احتساب والے محکمے بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کہ سفارش اور رشوت میں بڑی طاقت ہے۔ ایک مثال عرض کردوں کہ لاہور میں میاں شہباز شریف نے سیف سٹی پروگرام کے 8ہزار کیمرے لگوا کر رواں کئے اور ان کی تعداد 20ہزار ہونا تھی، موجودہ صورت حال یہ ہے کہ 8ہزار میں سے قریباً تین ہزار کیمرے خراب اور درجنوں لائٹیں بجھی پڑی ہیں ، بار بار کی توجہ کے باوجود مرمت اور بحالی نہیں ہوئی۔ میں اپنے صحافی بھائیوں خصوصاً انویسٹی گیشن رپورٹروں سے پوچھتا ہوں کہ سکینڈل تلاش کرنے والی ان کی اہلیت اور صلاحیت کہاں کھو گئی، کروڑوں کے غبن اور لاکھوں کی خورد برد کیوں نہیں کھنگالتے؟