سیاسی کارکن کی موت

 سیاسی کارکن کی موت
  سیاسی کارکن کی موت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی سیاسی کارکن کی موت مجھے حد درجہ افسردہ کر دیتی ہے یہ آج کا ماجرا نہیں اس دور کی بات ہے جب ابھی دورِ طالب علمی چل رہا تھا اور ملتان میں جودت کامران جیسا ذہین طالب علم پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ یہ ایوب دور کا واقعہ ہے اور اس کے بعد بھی سیاسی کارکن اور طلبہ تنظیموں کے ارکان جمہوریت اور اپنے بنیادی حقوق کے لئے قربانیاں پیش کرتے رہے، سیاسی کارکن بہت معصوم ہوتے ہیں انہوں نے تخت و تاج نہیں لینا ہوتا بس وہ اپنے اندر کے فطری جنون اور خواہش آزادی کے باعث بلا معاوضہ اور بنا لالچ سیاسی کارکن کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے ملک میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا مگر اس کے باوجود سیاسی کارکنوں نے اپنی خو نہیں چھوڑی وہ جس پارٹی سے وابستہ ہوئے پھر اس کے لئے تن من دھن وار دیا۔

یہ تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ بدقسمتی سے پھر ایک کارکن شہید ہو گیا ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی ہے اور وہی تکنیک استعمال کی ہے جو مبینہ پولیس مقابلے میں گرفتار ڈاکوﺅں کو مارنے کے بعد کرتی ہے کہ انہیں برآمدی کے لئے لے جایا جا رہا تھا، راستے میں ان کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا اور وہ ان کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔ تحریک انصاف کا کارکن علی بلال عرف ظلِ شاہ کیا پتھراﺅ کی وجہ سے جاں بحق ہوا جیسا کہ پولیس کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے اس کی دوسری طرف ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں کہ پولیس نے اسے پکڑا مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا، پھر پولیس وین میں بٹھا دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا کسی کو کچھ معلوم نہیںبس اتنا معلوم ہے کہ پولیس اس کی لاش لے کر ہسپتال گئی، جس کی تصدیق ہسپتال کے ایم ایس نے بھی کی ہے۔ ظل شاہ کے والد پوسٹ مارٹم کے وقت ہسپتال میں بیٹھے رہے انہوں نے تھانہ ریس کورس میں اپنے بیٹے کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کی درخواست بھی دی مگر ان کی درخواست درخور اعتنا نہ سمجھی گئی اور ڈی ایس پی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

سیاسی سیاسی کارکنوں کی موت کا انجام یہی ہوتا ہے۔ ان کے ورثاءانصاف کے لئے ساری عمر آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں مگر انہیں انصاف نہیں ملتا۔ ظل شاہ بھی ایک ایسا ہی کارکن ہے اس کا خون بھی خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا کے مصداق وقت کی گرد تلے دب کر قصہ پارنیہ بن جائے گا۔ چار دن اسے یاد رکھا جائے گا پھر صرف وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے دلوں میں زندہ رہے گا باقی سب بھول بھال کر اپنی سیاست میں مگن ہو جائیں گے۔


علی بلال ظلِ شاہ کے بارے میں اب تک جو معلوم ہوا ہے وہ بڑا کمیٹڈ اور عمران خان کی محبت میں گرفتار کارکن تھا وہ کئی ہفتوں سے زمان پارک میں دن رات موجود رہتا اس نے ایک طرح سے خود کو تحریک انصاف ے لئے وقف کر دیا تھا۔ میں نے آج تک اس کی کوئی تصویر عمران خان کے ساتھ نہیں دیکھی، البتہ مختلف پارٹی رہنماﺅں کے ساتھ اس کی تصاویر ضرور موجود ہیں، پتہ نہیں اس کی عمران خان سے کبھی بالمشافہ ملاقات بھی ہوئی یا نہیں کیونکہ ایسے کارکنوں کو اندر جانے کا موقع کم کم ہی ملتا ہے۔ علی بلال ظلِ شاہ زمان پارک کے باہر پارٹی کے نغمے گاتا، سینہ ٹھونک کر کہتا کسی میں جرائت نہیں کہ کپتان کی طرف دیکھ بھی سکے۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے میری لاش سے گزرنا پڑے گا، اس نے کل یہ سچ کر دکھایا، کاش وہ ایسا نہ کرتا، کاش اپنے جذبات پر قابو رکھ کر پولیس کے سامنے نہ آتا۔ سامنے آیا تھا تو عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی بجائے پنجاب پولیس زندہ باد کا نعرہ لگاتا۔ کاش وہ عمران خان کا یہ پیغام بر وقت سن لیتا کہ ریلی نکالنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔

کاش وہ بھی زمان پارک کی چار دیواری میں آ جاتا اور نعرے بازی کرتے ہوئے پولیس کے آنسو گیس شیلوں، واٹر کینن کی جان لیوا دھاروں اور لاٹھیوں کے سامنے نہ آتا، مگر وہ بھولا بادشاہ تھا۔ یہ بھول گیا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی حیثیت ایک ذرہ¿ بے مایہ جیسی ہوتی ہے، اُنہیں پاگلوں کی طرح حالت جنون میں ریاستی اداروں کے سامنے نہیں آتا چاہئے، لیڈر کبھی ایسے ماحول میں باہر نہیں نکلتے۔ وہ اندر چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور غریب ماﺅں کے بیٹوں کو آگے کر دیتے ہیں اس کی جان بھی بچ سکتی تھی اگر وہ تھوڑی سیاست سے کام لیتا۔،موقع دیکھ کر پتلی گلی سے جان بچاکے نکل جاتا مگر شاید اسے انہیں کارکنوں کی صف میں شامل ہونے کی جلدی تھی جو ماضی میں سیاسی تحریکوں کا ایندھن بن گئے، سیاسی جماعتوں کو ان کی قربانیوں سے فائدہ تو ہوا مگر خود وہ ماضی کی تاریک فضا میں ڈوب کر کسی کو یاد نہ رہے۔ سیاسی کارکنوں نے کسی ایک جماعت کے لئے نہیں بلکہ ہر جماعت کی خاطر قربانی دی ہے۔ پیپلزپارٹی سرفہرست ہے، مسلم لیگ (ن) کے پاس بھی سیاسی کارکنوں کی ایک فہرست موجود ہے جو مختلف دور میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنے مگر ان سب کو کیا ملا کسی کے پاس اس کا جواب ہے تو بتائے۔


مجھے تو مستقبل کا منظر نامہ دیکھ کر خوف آ رہا ہے، ابھی ہم نے انتخابات کی طرف جانا ہے۔ سیاسی آزادیوں کی اگر یہی صورت رہی جو کل دیکھی گئی تو پھر ایسے کئی معصوم سیاسی کارکن سانحات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ جب سیاست کو معرکہ جنگ و جدل سمجھ لیا جائے تو ہر طرف ایک کشیدگی اور ہڑبونگ ہی نظر آتی ہے۔ 8 مارچ کو جو کچھ لاہور میں ہوا کیا اس سے بچا نہیں جا سکتا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے کہ سڑکوں پر ہلچل رہے گی تو ان کی سیاست بھی زندہ رہ سکے گی حکومت کے پاس اپنے دلائل ہیں اور اپوزیشن یعنی تحریک انصاف اپنے دلائل رکھتی ہے۔ یہ معاملہ کشیدگی کی طرف ہی جائے گا اگر مل بیٹھ کر کوئی ضابطہ¿ اخلاق طے نہ کیا گیا سیاسی کارکن تو بے چارے معصوم اور لائی لگ ہوتے ہیں انہوں نے تو قیادت کے کہنے پر چلنا ہوتا ہے۔ جب تحریک انصاف خود کہہ رہی ہے کہ حکومت فسادات کرا کے الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ دفعہ 144 کے باوجود ریلی نکالنے کی ضد کی جائے، کیا الیکشن مہم ڈور ٹو ڈور نہیں چلائی جا سکتی، کہنے کو اس بات میں بہت وزن ہے کہ آئین الیکشن مہم کے دوران جلسے جلوسوں کی اجازت دیتا ہے مگر کیا اس آزادی کو زبردستی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

زبردستی حاصل کرنے کے لئے تو تصادم سے ہی گزرنا پڑے گا اور تصادم میں نقصان سب کا ہے خاص طور پر سیاسی کارکن اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں میں نے ظل شاہ کے باپ کی آنکھوں میں جو آنسو دیکھے ہیں۔ اس دور کی کسک میں اب تک محسوس کر رہا ہوں۔ اب یہ بحثیں ہوتی رہیں گی وہ کیسے جاں بحق ہوا ، ایک اور سیاسی کارکن اس بے رحم سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا جس میں سیاسی کارکنوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ میں نے ابھی تحریک انصاف کے ایک سیاسی کارکن کی سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھی جس میں اس نے کہا ہے عمران خان صاحب آئندہ الیکشن میں ٹکٹیں سیاسی کارکنوں کو دیں کیونکہ وہی پارٹی کے لئے جان دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مجھے اس کارکن کی سادہ لوحی پر ترس آیا۔ سیاسی کارکن صرف قربانیاں دینے کے لئے ہوتے ہیں ٹکٹیں انہیں ملتی ہیں جو ٹکٹ خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں ایک اور سیاسی کارکن اس سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے جس میں کارکنوں کی اہمیت صرف اتنی ہے جتنی وڈیروں کے ہاں کمی کمین کی ہوتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -