گھٹیاالزامات کے ساتھ پُرتشدد انتخابی مہم کا آغاز

سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد صدر پاکستان نے 30اپریل کو پنجاب میں انتخاب کرانے کا اعلان کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے لئے الیکشن شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں تاخیری حربے جاری ہیں۔ سنجیدہ حلقے ابھی بھی وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کے لئے کوشاں ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں علیحدہ علیحدہ انتخابات کی صورت میں یقینا قومی یک جہتی کو نقصان ہوگا صوبائیت کا پرچار کرنے والی قوتوں کو سازشوں کا موقع ملے گا۔ آرمی چیف کی تاجروں سے طویل نشست کے بعد تاجر برادری پُرامید ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی۔ آرمی چیف کی طرف سے دوٹوک انداز میں سیاسی مداخلت نہ کرنے اور سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کی تلقین قابلِ ستائش ہے۔ افسوس ایسا نہیں ہو سکے گا سیاستدان ملکی مفاد اور عوامی مفاد دونوں سے کنارہ کشی کر چکے ہیں سیاستدانوں کے طرزعمل کی وجہ سے عوام کی حالت زار قابل رحم ہو چکی ہے۔آئین کو مذاق بنا دیا گیا ہے عدلیہ اور فوج کے خلاف موقع ملنے پر الزام تراشی سے اجتناب نہیں کیا جا رہا ضد اور انا سیاستدانوں کی پہچان بن چکی ہے۔ مقتدر حلقوں کا سیاست سے لاتعلقی کا اعلان خوش آئند قرار دینے والے سیاستدا ن بھی سوشل میڈیا پر زبان درازی سے باز نہیں آ رہے انتخابات کے اعلان کے باوجودالیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔ شکوک بڑھ رہے ہیں بداعتمادی گھر بنا رہی ہے۔ الیکشن شیڈول کے اعلان کے دن تحریک انصاف کی طرف سے ریلی کو دفعہ 144کو جواز بنا کر روکنا ہرگز جمہوری عمل نہیں ہے۔ زمان پارک میں جو جنگ و جدل ہوا،کارکن کی ہلاکت،سینکڑوں گرفتاریوں اور کروڑوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑنے اور آنسو گیس اور واٹرکین کا استعمال جمہوری عمل نہیں ہے۔ نگران حکومت پر سوال اٹھیں گے مار کٹائی، لاٹھی چارج کی کوریج روکنا، نیک نامی میں اضافے کا باعث نہیں بن رہا۔ الیکٹرونک میڈیا پر پابندی کا ردعمل سوشل میڈیا کے ذریعے اور پرتشدد ہو رہا ہے۔ سیاستدانوں کی زبان جمہوری نہیں ہے نہ ہی اخلاقی قدروں کے مطابق۔
حامد میر صاحب کو وزیرداخلہ انٹرویو دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ عمران خان نے سیاست کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے ہم سیاسی دشمن نہیں رہے ذاتی دشمن بن چکے ہیں میں نے یہ خبر اخبار میں پڑھی تو مجھے یقین نہیں آیا۔ وزیرداخلہ یہ بات کہہ سکتا ہے تصدیق کے لئے مجھے دوبارہ حامد میر صاحب کا کیپٹل ٹاک دیکھنا پڑا ساتھ ہی وہ فرما رہے تھے بوریاں بھر کر ڈالر افغانستان جا رہے ہیں،بدبخت عمرانی ٹولہ گرفتاری نہیں دے گا تو ہم پکڑ کر مچھ جیل کی فلاں وارڈ میں رکھیں گے۔ مریم نواز ترازو کے پلڑے برابر کرنے کے ساتھ عمران خان کو نشی، نااہل، بدکردار، ڈرپوک انسان قرار دینا اور مریم اورنگزیب کا ہر پریس کانفرنس کا آغاز انتہائی گھٹیا اور بہودہ الفاظ سے کرنا معمول بن گیا ہے۔ آصف علی زرداری بھی (ن) لیگ کی قیادت سے پیچھے نہیں رہے انہوں نے وہاڑی میں عمران خان کو مخاطب ہی پاگل خان قرار دے کر کیا۔ الیکشن کے واضح اعلان نہ ہونے کے باوجود (ن) لیگ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف متوقع انتخابات کی تیاریوں کے لئے اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے عمران خان پر حملہ اور ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا پلستر جعلی قرار دینے کے ساتھ ساتھ چارپائی کے نیچے چھیننے دیوار پھلانگ کر دوسرے گھر جانے جیسے الزامات کے باوجود 78مقدمات ان پر قائم ہو چکے ہیں۔ سابق جرنیلوں کا کورٹ مارشل کا مطالبہ نیا پنڈورابکس کھولے گا۔ پی ٹی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی الزامات میں پیچھے نہیں رہے ان کی گھن گرج بھی جاری ہے اکانومی سے وابستہ طبقہ پاکستان کے موجودہ حالات کو مشکل ترین حالات قرار دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، امریکن ٹیم کی آمد، اسرائیل کے تاجروں کی اسحاق ڈار سے ملاقاتیں اور ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی زیرگردش خبروں کی حکومت اور وزیرخزانہ کی طرف سے واضح موقف نہ آنے سے عوام میں بے چینی کی لہر ہے۔
پی ٹی ایم کی 11جماعتوں کا عمران خان سے نجات ملے ایک سال گزرنے کے باوجود ہر ناکامی اور مہنگائی کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دینا عوام میں مزید اضطراب کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کی سیاست محبت، اخوت، بھائی چارے سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی جماعت پلان دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہر ماہ ہزاروں نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ غریب تو غریب متوسط طبقہ سفید پوشی کا بھرم کھو چکا ہے۔ یوٹیلٹی بل نے بڑے بڑے خاندانوں کا بجٹ متاثر کر دیا ہے۔تنخواہ دار طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ پہلی دفعہ دیکھنے کو آ رہا ہے انتخابی مہم عوام کے دکھ درد بانٹنے، ان کے علاقوں کی فلاح بہبود کے منصوبے دینے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگانے اپنی ناکامیوں کو گزشتہ حکمرانوں کو ذمہ دار قرار دینے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
تحریک انصاف نے مریم نواز کی جاری انتخابی مہم اور ورکر کنونشن کے جواب میں لاہورسے پوری طاقت کے ساتھ زمان پارک سے داتا دربار ریلی نکانے کی کوشش کی زبردستی روک دیا گیا ساڑھے تین سال عوام اور معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی تحریک انصاف کی طرف سے انتخابی مہم کی پہلی ریلی پر کروڑوں روپے کی اشتہاری مہم دیکھ کر مہنگائی کی چکی میں پسی ہوئی عوام اور دکھی ہو گئی ہے پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے بیانات عمران خان کو جیل بھیجنے یا عدالت سے نااہل کرانے تک محدود ہیں اور عمران خان کے بیانات اور الزامات جنرل باجوہ کو محسن کش ثابت کرنے تک محدود ہیں۔ ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات،کردار کشی اور ایک دوسرے کو دشمن قرار دے کر بند کرنے کی دھمکیاں کا جائزہ لیا جائے تو جمہوریت کے دشمن ہیں۔ جمہوریت کی تعریف بھول چکے ہیں۔ عدالت سے حق میں فیصلہ آ جائے تو عدلیہ اچھی عدالت میرٹ پر فیصلہ کر دے عدلیہ جانبدار ہمارے سیاستدان ملک کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ عوام کے لئے ایک سیاستدان بھی بات کرنے،ان کو حوصلہ دینے کی بات نہیں کرتا، رمضان میں ایک ماہ کے لئے آٹا مفت فراہم کرنے سے عوام کو ملنے والے گہرے زخموں پر مرحم نہیں رکھا جا سکتا۔نہ ایک دوسرے کو ناکامیوں اور مہنگائی اور ملکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے کر جان چھوٹے گی، ملکی معیشت کی ناؤ ڈوب رہی ہے۔
شرح سود میں ایک ساتھ 3فیصد اضافہ آئی ایم ایف کے 6فیصد شرح سود کرنے کے مطالبے پر وزیرخزانہ کا گرین سگنل بڑے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے جو سیاستدان ملک اور قوم کی بات پر ایک میز پر بیٹھنے کے لئے تیار نہیں جو ملکی معیشت کی ڈوبتی ناؤ پار لگانے کے لئے ایک دوسرے کو معاف کرنے اور برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ عوام ان کو کیوں سر پر بٹھانے کے لئے تیار ہو گی۔ لگ رہا ہے اب بڑا فیصلہ عوام کو ہی کرنا پڑے گا، میڈیا پر پابندی عمران خان کا اقدام بھی غلط تھا۔ میڈیا اور چینل پر پابندی موجودہ حکومت کا اقدام بھی غلط ہے۔مسئلہ ہے غلط صحیح کا فیصلہ کون کرے گامسئلہ حقیقت ہے عوام کو کرنا چاہیے مگر عوام نہیں کر رہے شائد آئند ہ بھی عوام نہ کر سکیں۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ بتاتی ہے بگڑے ہوئے سیاستدانوں اور نوابوں کو صرف مقتدر حلقے ہی ایک میز پر بٹھا سکتے ہیں۔ ڈنڈا پیر سب کا علاج ہے۔ فوج نہ مداخلت کرے مگر بگڑے ہوئے سیاستدانوں اور تباہ حال معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کا فریضہ ایک دفعہ انجام دے کر پھر توبہ کر لیں! قوم ممنون ہوگی،ورنہ سیاستدانوں کی الزام تراشیاں اور بہودہ الفاظ ہی ایک دوسرے کو دشمن قرار دینا مستقبل کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔