مریم نواز کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر سنگین الزامات ، توسیع مانگنے کا دعویٰ کتنا درست ہے اور پیچھے کی کہانی کیا ہے ؟ تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آ گیا 

مریم نواز کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر سنگین الزامات ، توسیع مانگنے کا ...
مریم نواز کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر سنگین الزامات ، توسیع مانگنے کا دعویٰ کتنا درست ہے اور پیچھے کی کہانی کیا ہے ؟ تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آ گیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی اسد علی طور نے یوٹیوب پر جاری وی لاگ میں کہا کہ مریم نواز صاحبہ نے انٹرویو میں کہا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ جب چیف جسٹس پاکستان تھے تو انہوں نے توسیع مانگی تھی۔ اور اس کے لیے ایک وفد میاں نواز شریف کے پاس جیل میں آیا تھا۔ کہ اگر ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے۔ تو اس صورت میں آپ کو تا حیات نااہلی پر ریلیف مل سکتا ہے ، لیکن اس کے لیے آپ کو پارلیمنٹ میں اپنی جماعت کو کہنا ہوگا کہ وہ ججز کی ریٹائرمنٹ کے لیے جوآئین میں ترمیم لائی جائے گی اس کے حق میں ووٹ کریں گے، تومریم نواز صاحبہ کے بقول میاں نواز شریف نے اس وفد کو انکار کر دیا اور اس کے بعد پھر ہوتا وہی ہے ۔
اسد علی طور نے کہا کہ اب ہم آپ کو اس کی پیچھے کی کہانی بتاتے ہیں وہ کیا ہے ،دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ کا جو یہ دعویٰ ہے یہ بالکل درست ہے اب اس کی پیچھے کی کہانی آپ کو سناتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مریم نواز صاحبہ کا دعویٰ کیسے درست ہے۔آپ کو شائد علم ہو گا کہ نواز شریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے چھ ہفتے کی ضمانت دی تھی ، اس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں جب چیلنج ہوا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کا ایک سخت فیصلہ دیا ، باوجود اس کے کہ اس وقت بریگیڈیئر اسد منیر خودکشی کر چکے تھے اور انہوں نے آصف سعید کھوسہ کے نام یہ خط لکھا تھا کہ میرے ساتھ نیب نے اتنی زیادتی کی اور میں آج خودکشی کر رہا ہوں باوجود اس کے کہ ایک سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر نیب کی کسٹڈی میں مارے گئے تھے۔
سپریم کورٹ کے ٹی روم میں ، جہاں ججز آپس میں بیٹھتے ہیں، چائے پیتے ہیں، گپ شپ لگاتے ہیں، چیمبر میں بھی چلے جاتے ہیں، ،ٹی روم میں گپ شپ ہو رہی تھی، ذرائع بتاتے ہیں کہ اس وقت آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس تھے اور ان کی ریٹائرمنٹ میں دو تین ماہ رہتے تھے ، یہ بات 2019 کی ہے ، ، کبھی ایسے ہوتاہے کہ کوئی بات ہو رہی ہے تو ساتھی اپنی طرف سے کچھ چیزیں شامل کرتے ہیں لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بات شروع کر دی کہ دیکھیں اگر مجھے توسیع اگر اس حکومت نے دینی ہے تو وقت آنے پر آپ لوگوں کو بھی اعتماد میں لوں گا ، انشاءاللہ مل جل کر فیصلہ کریں گے کہ میں توسیع لے لو ں یا نہیں۔
اسد علی طور نے کہا کہ وہ اپنے ساتھی ججز کو بتا رہے تھے کہ مجھے توسیع کی آفر ہو رہی ہے ، میں اس پر ذہن بنا رہاہوں ، جب قومی اسمبلی میں قانون پاس ہونے کیلئے آئے تو میں آپ کو دوبارہ اعتماد میں لوں گا اور ہاں کروںگا، ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 62 یا 64 سال کر دی جائے جبکہ فی الحال ججز 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو رہے ہیں، اس کے بدلے نوازشریف کو ریلیف دیتے لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ جب جنرل قمر جاوید باوجوہ کو توسیع ملی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے توسیع پر سوموٹو لے لیا ،کہانی یہ تھی کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید نے آصف سعید کھوسہ کو زبان دی تھی کہ اگر تم بطور بینچ کے سربراہ پانامہ بینچ کے ججز اپنے ساتھ ملا کے نواز شریف کو تاحیات نااہل کر کے منظر نامے سے ہٹا دو تو جب تم چیف بنو گے تو ہم تمہیں توسیع دلوائیں گے اور تمہارا دورانیہ بڑھائیں گے ۔ جب آصف سعید کھوسہ صاحب کوتوسیع نہ مل سکی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کوتوسیع مل گئی اور وہ بل بھی جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی اسمبلی سے بندوق سر پہ رکھ کے پاس بھی کروا لیا تو آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یار اس نے خود تو اپنی توسیع کا بل پاس کروا لیا لیکن میری عمر میں اضافے کا بل پاس نہیں کروایااور مجھے توسیع نہیں دلوائی ، انہوں نے اس کا غصہ یہ اتارا کہ انہوں نے اس ایکسٹینشن کا سوموٹو لے لیا اور ان کو پتہ تھا کہ وہ کر کچھ نہیں سکتے انہوں نے کرنا بھی کچھ نہیں تھا لیکن انہوں نے کہا جاتے جاتے ایک دفعہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کو ایک چٹکی تو کاٹ کے جاو¿ں کہ میرے ساتھ تم نے مس کمٹمنٹ کی ہے، تمہیں جواب دے کے جا رہا ہوں۔

مزید :

قومی -