پھر یہ افلاک سے آتی ہے صدابہرِ خدا ۔۔۔کوئی انسان کی صورت میں اب انساں آۓ

خواہشِ دل تھی یہاں صبح فروزاں آۓ
میں نے کب چاہا تھا پھر شامِ غریباں آۓ
موت بھی رقص کرے گی سرِ مقتل آ کر
تیرے دیوانے اگر دار پہ رقصاں آۓ
پھر یہ افلاک سے آتی ہے صدا، بہرِ خدا
کوئی انسان کی صورت میں اب انساں آۓ
آنکھ جو دیکھی، وہ تھی سیلِ بلا میں غلطاں
جیسے ساحل پہ کبھی موجۂ طوفاں آۓ
خواہشِ وصل لئے پھرتے ہیں مارے مارے
تیرے کوچے میں سبھی چاک گریباں آۓ
از زمیں تا بہ فلک شعلے ہی شعلےہوں گے
اشکِ غم میرے اگر شعلہ بہ داماں آۓ
جعفری ایک ہی ٹھوکر سے میں ٹھکرا دوں گا
زیرِ پا میرے اگر مسندِ سلطاں آۓ
کلام :ڈاکٹر مقصود جعفری (اسلام آباد)