زیادہ پسند کی جانے والی سواری ٹرام تھی،منزل کی کوئی قید نہیں، جہاں دل کرے اتر جائیں، کرایہ ایک ہی تھا

زیادہ پسند کی جانے والی سواری ٹرام تھی،منزل کی کوئی قید نہیں، جہاں دل کرے اتر ...
زیادہ پسند کی جانے والی سواری ٹرام تھی،منزل کی کوئی قید نہیں، جہاں دل کرے اتر جائیں، کرایہ ایک ہی تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:41
صدر بازار
صدرکراچی کی جان اور ایک عظیم کاروباری مرکز ہونے کے ساتھ شہر کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کا محور بھی تھا ۔ اس کے علاوہ متعدد سرکاری دفاتر بھی یہیں تھے ۔ یہ ہمارے گھر سے انتہائی قریب تھا ، اتنا قریب کہ بسا اوقات گھر بیٹھے بسوں کے بھونپواور ٹراموں کی گھنٹیوں کی آوازیں بھی سن جاتی تھیں ۔ میرا سکول بھی یہیں تھا ، اور روزمرہ کے کاموں اور گھریلو سامان کی خریداری کے لیے بھی وہیں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس لیے ہماری زندگی میں صدرکاایک خاص مقام تھا ۔وہ جو کہتے ہیں نا کہ ملا کی دوڑ مسجد تک، تو ہمارے لیے ہر کام کی پہلی ترجیح صدر ہی ہوتاتھا ۔ لکی سٹار ہوٹل نہ صرف ہمارا بلکہ ایک طرح سے صدر کا مرکزی مقام تھا۔ آس پاس کے علاقوں میں جانے کے لیے یہ ایک سنگم کی حیثیت رکھتا تھا ۔ صدر میں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی سواری ٹرام ہی تھی ۔ کفایت شعاری کا تقاضا بھی یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ سفر اسی پر کیا جائے۔اس کا کرایہ شروع میں تو ایک آنہ، بعد میں شاید پانچ پیسے ہوگیا تھا۔منزل کی کوئی قید نہیں تھی، جہاں دل کرے اتر جائیں۔ کرایہ ایک ہی تھا۔
کراچی کی ٹرامیں
 کراچی کی ٹرامیں بھی عجوبۂ روزگار تھیں ۔ سنتے ہیں جب ان کا نزول اس شہر میں ہوا تو پہلے پہل اس کو گھوڑے لے کر دوڑا کرتے تھے۔ پھر اسے ڈیزل انجن پر منتقل کیا گیا۔ اس ٹرام میں بیک وقت کوئی چالیس پچاس لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے اور اتنے ہی باہر پائے دانوں پر لٹکے ہوئے دیکھے جا سکتے تھے ۔ حالانکہ یہ بہت ہی کم رفتار سے چلتی تھی لیکن سڑک کے عین وسط میں چلنے کی وجہ سے ہر وقت حادثے کا اندیشہ لگا رہتا تھا ، اس لیے ڈرائیور نیچے لگے ہوئے پیڈل پر مسلسل پیر مار کرپیتل کی گھنٹی بجاتا رہتا تھا اور یوں راہ گیروں اور دوسری گاڑیوں والوں کو خبردار کرتا رہتا تھا۔لیکن پھر بھی کبھی کبھار حادثات ہو ہی جاتے تھے ۔ریل گاڑی کے برعکس اس کی پٹریاں اندر دھنسی ہوئی اور سڑک کی سطح کے ساتھ ہموار ہوتی تھیں تاکہ آنے جانے والی گاڑیوں کو سڑک عبور کرنے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ سب سے دلچسپ اور ناگہانی افتاد تو اس وقت پڑتی تھی جب ٹرام کی پٹری پر کوئی چھوٹا ساپتھر یا کوئی اوررکاوٹ آجاتی اور ٹرام خود ہی پھدک کر پٹری سے اُتر جاتی اور بے لگام گھوڑے کی طرح جس طرف جی چاہتا تھا ادھر کو ہو لیتی تھی ۔ایسے موقع پر ڈرائیور کا رنگ زرد پڑ جاتا تھا ، مگروہ اپنے ہوش و حواس قا ئم رکھتا اور حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے نہ صرف دیوانوں کی طرح مسلسل گھنٹی بجاتا بلکہ منہ سے بھی شور مچاتا اور بلند آوازمیں ہٹو بچو کی صدائیں لگاتے ہوئے اور لیور کو ادھر اُدھر گھما پھرا کر اس کو کسی نہ کسی طرح واپس پٹری پر لے ہی آتاتھا ، اگر ایسا نہ ہو سکتا تو وہ ٹرام کو بیچ بازار روک کر سب مسافروں کو اتار دیتا اور ان ہی سے دھکا لگوا کر اس کو آہستہ آہستہ پھر پٹری پر چڑھا دیتا تھا۔
 ایمپریس مارکیٹ سے ایک ٹرام لائین بندر روڈ پر سے ہوتی ہوئی میری ویدر ٹاور کے پاس سے گزرتی ہوئی کیماڑی تک جاتی تھی ۔یہ سب سے مصروف روٹ تھا جہاں ایک کے بعدایک ٹرام آتی جاتی رہتی تھی۔ بعض دفعہ توایک سے زیادہ ٹرامیں ریل گاڑی کی بوگیوں کی طرح آگے پیچھے چلتی نظر آتی تھیں ۔
اس کے علاوہ ٹرام کی ایک پٹری مینسفیلڈ سٹریٹ سے سولجر بازار کی طرف بھی نکلتی تھی ۔اس پر کم ہی آنا جانا ہوتا تھا۔ ویسے بھی یہ ایک مختصر سا روٹ تھا جو بیچ شہر میں ہی چلتا اور پھر وہیں کہیں گم ہو جاتا تھا۔ کم از کم میرا اس سے کوئی خاص لینا دینا نہ تھا۔
رات گئے ساری ٹرامیں اپنے فرائض اداکرکے قریب ہی اپنے ڈپو میں چلی جاتی تھیں، جہاں ان کونہلایا دھلایا جاتا اورصفائی کرکے اگلی صبح کے لیے تیار کرکے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ مقررہ وقت پر ڈرائیور آتے، ڈپوسے اپنے اپنے آ ہنی دستے حاصل کرتے اور اپنی ٹرام لے کر مقررہ روٹ پر روانہ ہو جاتے ۔
انورائٹی روڈسے صدر کی طرف جانے والی تقریباً تمام ہی سڑکیں اٹھلاتی بل کھاتی پہلے فرئیر روڈ پر ہی آتیں اور پھر وہاں سے دائیں بائیں گھوم پھر کر بالآخرا یمپریس مارکیٹ کے آس پاس ہی کہیں جا نکلتی تھیں۔ کراچی کو کچھ ایسے منصوبے کے تحت بنایا گیا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کا علاقہ مرکزی حیثیت اختیار کر گیا تھا ۔کسی بھی سڑک کو پکڑ کر اس پر آگے بڑھتے جائیں تو اس کی عمارت سامنے یا پہلو میں ہی کہیں کھڑی ملے گی ۔( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -