ڈاکٹر طاہرالقادری کا دانش کدہ
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ادارہ منہاج القرآن سے برادرم عبدالحفیظ چودھری کی جانب سے منہاج یونیورسٹی کے ہونہار طلباءو طالبات کے درمیان تقریری مقابلوں کے پنڈال کا حصہ بننے کی دعوت موصول ہوئی تو خوشی خوشی اس لئے بھی قبول کرلیا کہ تقریری مقابلے ڈاکٹر طاہرالقادری کے دانش ور صاحبزادے ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی تازہ کتاب ’دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور، کے موضوع پر تھے۔ برادرم حفیظ چودھری نے کمال مہربانی کی اور کتاب کی دونوں جلدیں بھی مطالعے کے لئے بھجوا دیں ۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی تحقیق کی ابتدائی ورق گردانی کی تو مجھے پروفیسر اعجاز احسن،جو کہ معروف قانون دان اور سابق وزیر داخلہ اعتزاز احسن کے سگے بھائی تھے،سے ہونے والی اپنی ایک ملاقات یاد آ گئی جب میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ پاکستان نے 72/70 کی عمرمیں ایسے ایسے کمال کے لوگ پیدا کر دیئے جن کا ایک عالم مداح ہے، کہیں فیض احمد فیض تو کہیں ڈاکٹر عبدالسلام، کہیں ڈاکٹر قدیر تو کہیں ڈاکٹر طاہرالقادری ،کہیں عمران خان تو کہیں جہانگیر خان، کہیں میڈم نور جہاں تو کہیں نصرت فتح علی خان...حالانکہ کسی بھی قوم کی زندگی میں ستر بہتر برسوں کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی لیکن ہم پاکستانیوں نے اس قلیل مدت میں ایٹم بم بنالیا ،کرکٹ کا عالمی کپ جیت لیا، ہاکی اور سکواش کے عالمی چمپیئن بنے، نوبل پرائز کے حقدار ٹھہرے اور کیسے کیسے ناقابل یقین کارنامے سرانجام دے دیئے۔اس پر پروفیسر اعجاز احسن کہنے لگے کہ یہ آپ نے کیا بات کی ہے، بھئی یہ دریائے سندھ کے کنارے آباد انڈس سویلائزیشن کا کمال ہے جس میں انسانی دماغ پچھلے پانچ ہزار سال میں پرورش پا کر آج اس درجہ کمال پر نظر آرہا ہے، جس کی بنیاد پر اس کم عمری کے باوجود پاکستانی قوم عقل و دانش، جرائت و بہادری کی مثال نظر آتی ہے ۔
ڈاکٹر حسن محی الدین کی شاہکار تصنیف دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور کے اجمالی جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاکہ انڈس سویلائزیشن کے پانچ ہزار سال کی تمام تر دانش ڈاکٹر حسن محی الدین کی ذات میں سمٹ آئی ہے کیونکہ وہ پاکستان کے ایک عظیم مبلغ، مبصر، مدبر اور شریعت محمدی کے داعی پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے فرزند عزیز ہیں۔ کہاوت ہے کہ ماں پر دھی پتا پر گھوڑا، بہتا نہیں پر تھوڑا تھوڑا ۔اس کتاب کا مطالعہ بار بار مجھے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے علم و دانش کی جھلک دکھاتا رہا جس کے لئے میں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اسلام سے قبل قبائلی نظام میں سوسائٹی کا یونٹ قبیلہ تھے۔ ہر قبیلے کا ایک جد امجد ہوتاتھاجس کی نسبت سے وہ قبیلہ جانا جاتا تھااور اپنے مخصوص مگر غیر تحریر شدہ رسوم و رواج کا پابند ہوتا تھاجس میںنہ تو قبائلی شیوخ یا کوئی Legislative power مداخلت کر سکتی تھی۔ پھر یہ بات بھی طے تھی کہ مکہ کو ایک تجارتی شہر،جبکہ مدینہ کو ایک زرعی شہرکا درجہ حاصل تھا۔ 622ءمیں مدینہ میں ہی مسلم کمیونٹی کا قیام عمل میں آیا اور وہاں آباد عرب قبائل نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم کیااور ان کے ہمراہ ہجرت کر کے مکہ سے آنے والے مسلمانوں کو دل سے اپنا بھائی تسلیم کیا اور اپنے اپنے قبائلی رواج پر قائم رہتے ہوئے مذہب اسلام کو اپنی اساس بناکر ایک ایسی قوم بن گئے جس کی عملداری یورپ و افریقہ ہر جگہ پھیلتی چلی گئی کیونکہ آقائے دو جہاںحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس معاشرے کے سیاسی اور قانونی مختار کارتھے اور ان کی قیادت و رہنمائی میں قرآنی احکامات نے قبائلی رسوم و رواج کی جگہ لینی شروع کر دی، عرب قبائل کے customary lawکہ جس میں قاعدے قانون کو ثانوی حیثیت حاصل تھی ، شریعت محمدی کے تابع ہوتے چلے گئے جس میں باہمی حقوق و فرائض اور باہمی تعلقات کو اولیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی 632 ءمیں وفات کے تیس سال بعد تک مدینہ منورہ مسلم سرگرمیوں کا مرکزو محور رہا۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے میثاق مدینہ سے دستور مدینہ کے 63 آرٹیکلز کچھ اس مہارت اور دانش مندی کے ساتھ تحریر کئے ہیں کہ پوری کائنات کا نظام سمٹ کر اس میں سمویا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے دستور مدینہ کے ہر ایک آرٹیکل کو علیحدہ علیحدہ کئی ایک زاویوں اور تناظر میں دیکھا اور پرکھا ہے۔اس کتاب کے سات ابواب علم کے وہ سات دروازے ہیں کہ جو کوئی ان میں داخل ہوا اس پر ایک حیرت کدہ کھلتا چلا گیا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے پنجاب یونیورسٹی کے لاءکالج میں برطانوی اور امریکی دساتیر طلباءکو پڑھانے کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر حسن محی الدین کا تحقیقی کام میرے لئے خاصے کی شے ثابت ہوا جسے میں نے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دیکھا ہے اور اس نیتجے پر پہنچا ہوں کہ ڈاکٹر حسن محی الدین کی کتاب آئندہ آئین و قانون سے متعلقہ یونیورسٹیوں میں طلباءکو پڑھائی جائے گی کیونکہ جس نادر موضوع پر انہوں نے کام کیا ہے، اس کی کمی ایک مدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ میں ڈاکٹر حسن محی الدین کو ان کی اس کاوش پر مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کے زور قلم کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے اور وہ انڈس سویلائزیشن کے تحت پرورش پانے والے بیدار اذہانوں کا سرمایہ ثابت ہوں ۔
1947ءمیں ریاست مدینہ کی پیروی میں ہمارے بزرگوں نے بھی ہجرت کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ریاست پاکستان کی بنیاد رکھی تھی ۔ مقامی سپوتوں یعنی Sons of the soilنے مہاجرین کو خوش آمدید کہا تھا لیکن آج 76برس گزرجانے کے باوجود بلوچی ، پٹھان، سندھی اور جنوبی پنجاب کے قبائل باہم شیروشکر ہونے کی بجائے باہم بدظنی کا شکار ہیں۔ اُمید کرتے ہیں کہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی کتاب دستور مدینہ اور فلاحی ریاست کاتصور ہم پاکستانیوں کو جوڑدے گی اور ہم بھی وہ عروج دیکھیں گے جو ریاست مدینہ کے باسیوں کا مقدر ٹھہرا تھا ۔ انشاءاللہ!