میثاق معیشت و مفاہمت۔۔ملک کو سنوارنے کے لئے وزیر اعظم کا             عزم!

  میثاق معیشت و مفاہمت۔۔ملک کو سنوارنے کے لئے وزیر اعظم کا             عزم!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے 24 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے میاں محمد شہباز شریف نے حلف اٹھالیا۔ایوانِ صدر میں منعقدہ عظیم الشان تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے علاوہ میاں محمد نواز شریف،آصف علی زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز ، بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور اراکین ِاسمبلی سمیت دیگر اہم شخصیات شریک تھیں ،جب کہ مختلف ممالک کے سفیر بھی تقریب حلف برداری میں موجود تھے۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے نو منتخب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سے حلف لیا۔ حلف برداری کے بعد وزیراعظم ہاو_¿س میں میاں محمد شہباز شریف کو مسلح افواج کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ بعدازاں وزیراعظم شہباز شریف سے وزیراعظم آفس کے عملے کا تعارف کرایا گیا۔اس دوران وزیراعظم نے عملے سے مصافحہ بھی کیا۔

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کے جس ہمہ جہت ایجنڈ ے کا اعلان کیا، اس پر عملدرآمد سے بلاشبہ ملک معاشی گرداب اور سماجی بے چینی سے باہر نکل سکتا ہے لیکن سیاسی عدم استحکام جو گزشتہ کئی سال سے تمام مسائل کی بنیاد ہے، جس کا ”شاہکار“ گزشتہ اتوار کو اس وقت بھی ایوان میں نظر آیا، جب میاں محمد شہباز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے لئے بلائے گئے اجلاس میں شروع سے آخر تک اپوزیشن بنچوں کی جانب سے جس ہلڑ بازی، شور شرابے اور نعرے بازی کا مظاہرہ کیا گیا،اس کے جواب میں حکومتی بنچوں سے تحمل و بردباری کے بجائے جس طرح ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا، کسی مہذب معاشرے میں اس کی مثال نہیں ملتی،یہ کسی بھی طرح 24 کروڑ عوام کے اس ملک کے منتخب ایوان کے شایانِ شان نہیں تھا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراﺅ کر لیا، پوسٹر لہرائے، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور مسلسل نعرے بازی کی جو منتخب وزیراعظم کے خطاب کے دوران بھی جاری رہی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کسی غیر متوقع صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے سارجنٹ ایٹ آرمز طلب کرنا پڑے۔ملک گزشتہ کئی سال سے جس سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے ، اس کا نقصان ، ملک کی اشرافیہ کو نہیں بلکہ غریب عوام کو بدترین مہنگائی اور لاقانونیت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین ِاسمبلی کو صرف ایک لمحے کے لئے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ملک میں یہ جو کچھ ہو رہا ہے ، کیا یہ ان کے شایانِ شان ہے؟

 وزیراعظم کا اسمبلی سے اپنا پہلا خطاب جو اپوزیشن کی مسلسل نعرے بازی کے دوران مکمل ہوا ، میں منتخب وزیر اعظم نے مخالف سیاسی قوتوں کو میثاقِ معیشت اور میثاقِ مفاہمت کی فراخ دلانہ پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ آئیں مل کر پاکستان کو سنواریں ، اسے درپیش چیلنجوں سے نکالیں، غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی، معاشی استحکام ، سستے اور فوری انصاف کے لئے کام کریں۔ انہوں نے نئی حکومت کی معاشی منصوبہ بندی بجٹ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا ؛تاہم اس کے کچھ خد و خال اپنی تقریر میں واضح کر دیئے۔ان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے دوست ممالک کی مدد،سرمایہ کاروں کے لئے ویزا فری انٹری کی سہولت، سرمایہ کاری اور کاروبار دوست ماحول کے راستے میں حائل فرسودہ قوانین کا خاتمہ ، تیل سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو متبادل ذرائع اختیار کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت، ٹیکس نظام میں اصلاحات، بجلی اور ٹیکس چوری کے خاتمے سمیت متعدد دوسرے اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نے امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک سے تعلقات میں بہتری، کسی گریٹ گیم کا حصہ نہ بننے، ہزاروںارب روپے کے اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

انتخابی شکایات کے ازالے کے لئے ہونے والے احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے اس کے لئے قانونی فورمز سے رجوع کیا جائے۔ 9 مئی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان میں ملوث عناصر کو سزائیں ضرور ملیں گی لیکن جو لوگ بے قصور نکلے، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ منتخب وزیراعظم نے ملک بھر میں بہترین ٹرانسپورٹ اور برآمدی سہولتوں کا جال بچھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاروں صوبوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ایک بڑا چیلنج ہے، اس پر بھی قابو پایا جائے گا۔ ٹیکسوں کی سطح کو کم کرنے اور بہترین ٹیکس دہندگان کو پاکستان کے معمار کا درجہ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسائل مسلسل محنت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ جمہوری نظام میں اپوزیشن بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی حکومت۔ پاکستان اس وقت جن سنگین بحرانوں کا شکار ہے ، وسیع تر قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے سیاسی جماعتیں گروہی رنجشیں بھلا کر ان کے مقابلے کے لئے مل جل کر کام کریں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جو شور و ہنگامہ ہوا، اِس نے قوم پر کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔اسمبلی کے ایوان میں اگر سنجیدگی سے بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہے لیکن بہر حال حزبِ اختلاف کے بھی اپنے گلے شکوے ہیں جن کا مداوا کیا جانا چاہئے۔ رانا ثناءاللہ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ ن لیگ نہ صرف مبینہ دھاندلی پر پارلیمانی کمیشن قائم کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ جوڈیشل کمیشن کے قیام پر بھی اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اپوزیشن اِس پیشکش سے فائدہ ا_±ٹھانے پر غور کرے، مبینہ دھاندلی پر جلد از جلد کمیشن قائم کروا کے تحقیقات کرائیں اور اس کے نتائج کو تسلیم بھی کریں۔

 2014ءسے اب تک 10 سال گزر چکے ہیں، مزاحمت کی سیاست چل رہی ہے، جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔اِس دوران کافی نقصان ہو چکا ہے۔ ملک اب مزید اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اہل ِ سیاست احتجاج کی بجائے آئینی راستہ اپنائیں، مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا راستہ اپنائیں۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بالکل درست کہا کہ ایوان میں شور کی بجائے شعور کا راج ہو نا چاہئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس راج کے لئے راہیں کیسے ہموار کرتے ہیں۔ اس وقت حقیقی معنوں میثاقِ معیشت و مفاہمت کرکے متحد ہو کر ملک کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے پہل حکومت کو ہی کرنی پڑے گی، جس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رانا آفتاب کے پاس جا کر انہیں مفاہمت کا پیغام دیا،اسی طرح وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو بھی چاہیے کہ اپوزیشن کو ساتھ ملانے کے لئے کچھ لو اور کچھ دو کا اصول اپنائیں کیونکہ سیاسی استحکام سے ہی ملک معاشی دلدل سے نکلے گا اور قوم کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہو گا۔

    ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -