بینک میں بھی بھولے سے کبھی کوئی خاتون آ جاتی تو ہمارے چپڑاسی کی جان مصیبت میں آجاتی، شور مچاتا اعلان کرتا”پرے پرے ہٹ جاؤ زنانہ آرہا ہے“

بینک میں بھی بھولے سے کبھی کوئی خاتون آ جاتی تو ہمارے چپڑاسی کی جان مصیبت میں ...
بینک میں بھی بھولے سے کبھی کوئی خاتون آ جاتی تو ہمارے چپڑاسی کی جان مصیبت میں آجاتی، شور مچاتا اعلان کرتا”پرے پرے ہٹ جاؤ زنانہ آرہا ہے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:206
  خواتین کے پردے کے حوالے سے وہاں لوگ بہت حساس تھے۔بینک میں بھی بھولے سے کبھی کوئی خاتون آ جاتی تو ہمارے چپڑاسی عبدا لحق کی جان مصیبت میں آجاتی، وہ دور سے ہی ڈھنڈروچیوں کی طرح شور مچاتا بھاگا ہوا آتا اور اعلان کرتا تھا کہ”پرے پرے ہٹ جاؤ زنانہ آرہا ہے۔“ زنانہ کے آتے ہی وہ اس کو سیدھا اسٹرانگ روم میں لے جاتا اور کرسی ڈال کر بٹھا دیتا۔ ایک دن میں نے اس کو منع کیا کہ زنانہ کو وہاں مت لے جایا کرو وہاں کیش وغیرہ ہوتا ہے، سیانا تھا، سمجھ گیا۔آہستہ آہستہ یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا، اب وہ زیادہ جذباتی نہیں ہوتا تھا۔
دوسری طرف ایک دفعہ غلطی سے اٹک آئل کمپنی کے چیف انجینئر کرمانی صاحب کی بیگم میرے اصرار پر اپنا اکاؤنٹ کھلوانے بینک آ گئیں کیونکہ وہ بغیر برقع کے تھیں اس لیے بینک کے سامنے ان کی ”جھلک“ دیکھنے کے لیے ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ وہ کہنے لگیں ”سعید بھائی اسی لیے کمپنی کے لوگ یہاں نہیں آتے، تماشہ بن جاتا ہے۔“
ایک بزرگ خاتون کو اپنا کھاتہ کھولنا تھا، فارم بھرنے کے دوران مسلسل کانپتے ہاتھوں کی وجہ سے وہ مقررہ جگہ پر انگوٹھا نہیں لگا پا رہی تھیں، اس طرح انھوں نے جب دو تین فارم خراب کر دئیے تو میں نے اس ضعیفہ کا انگوٹھا پکڑ کر فارم پر لگانے کی کوشش کی، اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ شوہر یکدم بھڑکے اٹھے اور ان کا رنگ غصے سے سرخ ہو گیا، میرا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا ”کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ، تمہیں جرأت کیسے ہوئی کہ میرے زنانے کا ہاتھ پکڑو“۔ میں اس ناگہانی مصیبت سے گھبرا گیا اور مردہ سی آواز میں کہا ”بابا جی یہ میری نانی کی عمر کی ہیں“۔ ایسے ماحول میں کام کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔
اسی طرح کا ایک اور تلخ تجربہ ہوا۔ کھوڑ میں لڑکیوں کا ایک ہائی سکول بھی تھا، وہاں کی ہیڈ مسٹریس نے ایک دن مجھے پیغام بھیجا کہ ہمیں ا سکول فنڈز کے کچھ اکاؤنٹ کھلوانے ہیں، بینک میں آنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے آپ یہاں اسکول آ جائیں۔ میں کیشئر کو لے کر وہاں چلا گیا اور ضروری کارروائی کر کے مطلوبہ کھاتے کھول دئیے۔ اگلے دن مجھے ہمارے چپڑاسی عبدالحق نے علیٰحدہ کر کے بتایا کہ باہر دو باتیں گردش میں ہیں، ایک تو یہ کہ مینجر صاحب لڑکیوں کے اسکول کیوں گئے، دوسری بات کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئی تھی اور وہاں کی شریف النفس ہیڈ مسٹریس اور میرے کردار پر بھی انگلیاں اٹھائی گئیں اور اس حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اللہ کا کرم تھا کہ یہ فضول قسم کی باتیں زیادہ دیر تک گفتگو کا موضوع نہ بنیں اور جلد ہی دم توڑ گئیں۔
اوئے جاگیر دارا!
اس علاقے کے ملکَوں سے میرا تعارف تب ہوا جب ایک صبح میرے گھر کا دروازہ بجنے لگا، باہر نکلا تو دیکھا کہ وہاں ایک دیہاتی کھڑا دانت نکال رہا تھا اس کے ساتھ ہی ایک گدھا بھی کھڑا تھا جوسامان سے لدا پھندا ہوا تھا،جس میں کئی قسم کی تازہ سبزیاں،پھل،مکئی کا تھیلا، گندم کی ایک بوری کے علاوہ ساگ اور اچار بھی موجود تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ ملک صاحب نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔میں نے اسے کچھ اچھا نہ جانا اور واپس لے جانے کو کہا۔ پہلے تو وہ راضی نہ ہوا پھر میرے مجبور کرنے پر وہ چلا گیا، اس کے ہاتھ میں نے ملک صاحب کو سلام بھیجا اوران کے خلوص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں پیغام بھیجاکہ بینک کے سخت قوانین ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اس قسم کے تحائف قبول کریں۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -