سچ کا سفر (1)

سچ کا سفر (1)
 سچ کا سفر (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صدرالدین ہاشوانی کا نام تو کافی سنا تھا لیکن اس کے سوا کچھ نہیں جانتا تھا کہ ہوٹل کے کاروبار سے وابستہ کوئی امیر شخص ہے۔ یہ بات توجہ میں پھانس نہ اٹکا سکی۔ محض شاندار عمارتیں بنا لینا کوئی کمال نہیں۔مردہ پتھروں کی عمارت میں زندگی دھڑکنے لگے تو مسیحائی ہوتی ہے۔ جیسے تاج محل محض ایک عمارت نہیں رہی۔ علامت بن چکی ہے ۔تاج محل ایک خیال ھے جو پتھرا گیا یا پتھر ھے جو یاد میں ڈھل گیا۔شاہ برج کے جھروکے میں بیٹھے قیدی شہنشاہ کی نمناک آنکھ ہی تاج محل میں محبوب کی عشوہ گری کی تجسیم دیکھ سکتی تھی۔عمارت زندہ ہوتوہم کلام ہوتی ہے۔مال روڈ پر لاہور کی سٹیٹ بینک کی بلند وبالامگر سپاٹ اور بے چہرہ عمارت شناخت سے محروم لاش ہے۔ جبکہ اسی کے پہلو میں ہائی کوٹ کی عمارت جیتا جاگتا وجود ھے۔یہ عمارت ہر آنکھ والے سے مخاطب رہتی ھے۔فن،خالق کا تعارف ہوتا ھے۔بس اسی طرح کائنات کو بھی اس کے خالق کا سرسری تعارف ہی سمجھئے۔ پرانی مردہ عمارتوں کو نئی زندگی عطا کرنے سے ہاشوانی نے شہرت حاصل کی۔ عمارتوں کی مسیحا ئی کی وجہ سے پاکستان کی چند قابل ذکر شخصیات میں اس کا شمار ہونے لگا ۔۔۔ لیکن اس تاثر سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے کہ جدید سہولتوں سے آراستہ شاندار ہوٹلوں کی عمارتوں میں جا کر عمارت بڑی اور انسان چھوٹا لگتا ہے۔جمہوری پبلیکیشز نے ہاشوانی کی کتاب ’’سچ کا سفر‘‘ چھاپی ھے۔اتفاقاََ نظر پڑی۔ دیکھا اور یہ کہہ کر کتابوں میں رکھ دی کہ ہوٹل بنانے اور کتاب لکھنے میں فاصلہ بہت ہے ۔یہ مسافت پاٹنا آسان نہیں۔ سوانح عمری لکھنے میں تو اور بھی کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اپنی ذات کی دلدل سے نکلناجان جوکھوں کا کام ہے۔ اکثر خود نوشت سوانح عمریاں یا تو اپنی بے گناہی اور مظلومیت کو ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ھیں یا پھر اپنے کارہائے نمایاں کو مبالغہ آمیزی اور تفاخر سے بیان کرکے مسرت حاصل کرتی ہیں۔

یہ سب کچھ سننے کے بعد فرخ سہیل گوئندی نے مسکرا کر کتاب مجھے دی اور کہاانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کتاب پڑھ کر فیصلہ کریں۔ میں نے کتاب کیا پڑھی۔

کتاب نے مجھے پڑھا۔۔۔۔ یہ کسی ایک شخص کی خود نوشت آپ بیتی نہیں ھے۔ بلکہ خاردار زندگی میں سے راستہ بنانے کی مربوط کوشش کا بیان ھے۔ ہمارے معاشرے کے خدوخال واضح ہوئے۔ اپنے تجربات کے حوالے سے سیاست کے ڈرامے کے کئی کردار وں کے اصل چہرے دکھائے۔ زیر سطح آب معیشت کے مختلف دھاروں کی آنکھ مچولی سے قاری کو روشناس کروایا۔جس ملک کا مروجہ نظام تنظیمی اساس نہ رکھتا ہو اور جہاں کرپشن خود ایک مربوط نظام کی ڈراؤنی شکل اختیار کر چکا ہو وہاں مصنف نے کسی معصوم بچے کی طرح سادگی سے کامیابی کی آخری منزل کو چھو لینے کا سربستہ راز افشا کر دیا ۔۔۔ اس مرحلے پر ایک سوال ابھرتا ھے کہ کامیابی کیا ہوتی ہے -- کامیابی دو طرح کی ہوتی ہے ۔اول ذاتی اور باطنی کامیابی دوم معاشرتی کامیابی یعنی جب معاشر ہ کسی کو کامیاب قرار دے ۔دونوں کی شرائط مختلف ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کا کامیابی کا تصور جداگانہ ہوتا ہے۔۔۔ ایک دیہاتی ماں کو اس کے قابل بیٹے نے خوشخبری سنائی کہ وہ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہو گیا ہے ماں نے آہ بھر کر کہا: ’’بیٹا !میری دعا ہے کہ میں تمیں پٹواری بنا دیکھوں ‘ ‘۔


مطمئن ڈرائیور کے پرانے ٹوٹے پھوٹے رکشے پر لکھا ہوتا ہے ’’ میری یہ کامیابی ماں کی دعاکی وجہ سے ہے‘‘۔۔۔ ایک کامیابی کا کمال تصور اور بھی ہے۔بستر مرگ پر شدید زخمی حالت میں گھائیل حضرت علیؑ نے فرمایا’’ربِ کعبہ کی قسم!میں کامیاب ہو گیا‘‘۔۔۔ یہ کتاب’’سچ کا سفر‘‘ بھی ایک کامیابی کا سفر ہے۔ زندہ رہنے کی آرزو کا سفر ۔ چھپی ہوئی خواہشیں کس طرح زندگی میں مدوجذر پیدا کرتی ہیں اور انسانی رشتوں کی جوڑ توڑ کس طرح رقص کر تے مناظر پیش کرتی ہیں ۔اس سفر کالمحہ لمحہ ، لحظہ لحظہ فیصلہ کن ہے۔ہم سب لمحوں کے قیدی ہیں ۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ ایک لمحہ اٹل شکنجہ ہے اورپوری زندگی اس ایک لمحے کی تابع رہے گی مگر وہ لمحہ بھی گزر جاتا ہے۔ زندگی کی بیکراں وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔زندگی کی قوس قزح دراصل فریب ہی ہے۔۔۔ ایک لمحہ کے اسیر جنرل ضیاء نے جب یہ دیکھاکہ بھٹو پھانسی چڑھ گیا تو اس نے اس لمحہ کو مستقل جانا۔اسے اپنی نجات سمجھا۔ مگر اس نجات کی کوکھ سے کیسے کیسے مسائل نے جنم لیا جن کا اُس سحر زدہ جنرل ضیاء نے احاطہ نہیں کیا تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ پھانسی پر جھولتا بھٹو کافی عرصہ تک پاکستان کی سیاست پر معلق رہا۔ پھر کچھ لوگوں نے سمجھا کہ بھٹو کو ہمیشگی حاصل رہے گی۔ پیپلز پارٹی بھٹو کے نام کی بیساکھیاں استعمال کرنے لگی۔ مگر بہت دیر بعد پارٹی کو شعور ملاکہ جنت میں جانے کے لئے خود مرنا پڑتا ہے۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -