مریم نواز اور اوبر مایر: سچا کون؟

مریم نواز اور اوبر مایر: سچا کون؟
 مریم نواز اور اوبر مایر: سچا کون؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے پاناما لیکس کے حوالے سے ٹویٹ کیا اور پاناما پیپرزکو Crapاور Trash قرار دیا،یعنی ردی اور فضول۔ اس کے جواب میں جرمن اخبار Suddeutsche Zeitung کے رپورٹر Dber Myer جن کے ذریعے یہ پیپرز دنیا بھر کے میڈیا کو لیک ہوئے تھے، نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ یہ انویسٹی گیٹو سٹوری تھی جو ان کی کاوش کے نتیجے میں دنیا بھر میں شائع اور نشر ہوئی اور اس پر ہنگامہ بپا ہوا۔ اوبر مایر صاحب کا یہ دعویٰ تو درست ہے کہ یہ سٹوری دنیا بھر کے میڈیا تک ان کے ذریعے پہنچی اور اگر وہ اسے آئی سی آئی جیکو دان نہ کرتے تو کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ان کا یہ دعویٰ درست ہے، لیکن کیا یہ حقیقتاً انویسٹی گیٹو سٹوری تھی؟ آیئے اس بات کا جائزہ لیں۔


دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں، جن کا مالیاتی نظام ایسا ہے کہ اگر آپ ان میں اپنی فرم رجسٹر کراتے ہیں اور اس کے ذریعے کاروبار کرتے ہیں تو آپ کو بہت معمولی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے،نہ ہونے کے برابر۔ چونکہ یہاں فرم رجسٹر کرانے کے نتیجے میں ٹیکس کی بچت ہوتی ہے، اس لئے انہیں ’’ٹیکس ہیون‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے ممالک کی تعداد درجنوں میں ہے اور ان کا یہ رعایت دینے سے مقصد یہ ہے کہ لوگ ان کے ملک میں پیسہ لائیں تاکہ ان کی معیشت ترقی کرے،لیکن یہ فرمیں صرف رجسٹرڈ یہاں ہوتی ہیں، کاروبار یہ دنیا بھر میں کرتی ہیں۔ ان ممالک میں کیمین آئے لینڈ، برٹش ورجن آئے لینڈ، سیشلز وغیرہ شامل ہیں اور یہاں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں کو آف شور کمپنیاں کہا جاتا ہے۔آف شور کیوں؟ اس لئے کہ یہ کاروبار کسی اور ملک میں کررہی ہوتی ہیں، مگر رجسٹرڈ کسی اور ملک میں ہوتی ہیں۔ کیا یہ کام غیر قانونی ہے؟ جی نہیں۔اس کے برعکس یہ سوفی صد قانونی کام ہے اور اس میں کسی قسم کی غیر قانونی بات نہیں۔

اب اگر آپ کوئی فرم بنائیں اور اسے رجسٹرڈ کرانا ہوتو چونکہ یہ ٹیکنیکل کام ہے جو ہر شخص کے لئے کرنا ممکن نہیں، تو اس کے لئے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے، جو ٹیکنیکل زبان جانتا ہو اور قانونی اصطلاحات سے واقف ہو۔ اس مقصد کی خاطر قانون جاننے والے کئی لوگوں (وکیلوں) نے لاء فرمیں بنا رکھی ہیں، جو فیس لیتی ہیں اور تمام قانونی تقاضے پورے کرکے آپ کی فرم کو جس ملک میں آپ چاہیں، رجسٹر کرادیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک فرم Mossac Fonseca بھی ہے، جس کا ایک دفتر پاناما میں بھی ہے، جو وسطی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ موزیک فونزیکا کمپنیوں کورجسٹرڈ کرانے کا کام کرتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ آپ کی فرم پاناما ہی میں رجسٹر ہو،بلکہ جس ٹیکس ہیون میں آپ چاہیں،رجسٹر کراسکتے ہیں۔ ایسی کتنی ہی لاء فرمیں ہیں، جو مختلف ممالک میں قائم ہیں۔ ان فرموں کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے مختلف ٹیکس ہیونز میں اپنی کمپنیاں رجسٹر کرائیں، جن کا ریکارڈ ظاہر ہے، ان کے پاس موجود ہے،لیکن یہ ریکارڈ سیکریٹ ہوتا ہے۔یہ لاء فر میں اپنے کلائنٹس کے تمام کاروباری معاملات خفیہ رکھتی ہیں، کسی کو اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتیں اور پیشہ ورانہ ایمان داری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ معاملات خفیہ رہیں۔ موزیک فونز یکانے بھی ان معاملات کو خفیہ رکھا، لیکن ہوا یہ کہ کسی نے ان کا ریکارڈ، جو کمپیوٹرائزڈ تھا، ہیک کرلیا۔کس نے؟یہ کسی کو نہیں معلوم۔


اب اوبر مایر صاحب اس سٹوری میں یوں داخل ہوتے ہیں کہ ایک روز انہیں کسی نامعلوم شخص کا پیغام موصول ہوتا ہے، جو ان سے دریافت کرتا ہے، ’’معلومات چاہئیں؟‘‘ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی لاکھوں فائلوں پر مشتمل ڈیٹا ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان فائلوں کے بھیجنے والا کون ہے ؟ یہ کسی کو نہیں معلوم ۔ اوبر مایر کو بھی نہیں۔کوئی جینوئن انویسٹی گیٹو جرنلسٹ یوں نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات کو آگے میڈیا اور قارئین تک نہیں پہنچاتا،اس لئے کہ یوں وہ کسی اور شخص کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہوتا ہے اور صحافی کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کے ہاتھوں میں ٹول(Tool)بن جائے، لیکن بغیر محنت کئے نام اور شہرت حاصل کرنے کی ہوس بھی کچھ انسانوں کے ساتھ لگی ہوتی ہے، سو اوبر مایر صاحب نے صحافت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نامعلوم ذرائع سے خیرات کی صورت میں ملنے والی ان معلومات کی بنیاد پر نام اور شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی،جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔۔۔لیکن مواد بہت زیادہ تھا اور یہ اکیلے آدمی کے بس کا کام نہیں تھا، اس لئے انہوں نے کسی ادارے کو اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے انٹر نیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس۔یہ تنظیم خود کسی قسم کی انویسٹی گیٹو رپورٹنگ نہیں کرتی، بلکہ دنیا کا ہر وہ صحافی جوانویسٹی گیٹو جرنلسٹ ہو یا اس بات کا دعویدار ہو، وہ مقررہ فیس ادا کرکے اس تنظیم کا رکن بن سکتا ہے اور دنیا بھر میں اس کے ہزاروں رُکن ہیں۔ تنظیم کا دفتر بھی ہے اور کچھ عملہ بھی، جو اس کے معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے ، فیس لے کر اراکین کی رجسٹریشن کرتا ہے اور ان سے رابطہ رکھتا ہے۔یہ اُسی طرح کی تنظیم ہے ، جیسے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس۔

اوبر مایر نے آئی سی آئی جیکو بھی اِس معاملے میں شامل کرلیا۔ اب ڈیٹا اس قدر زیادہ تھا اور اس میں لِنکس اتنے پیچیدہ تھے کہ اس کام میں چالیس برس سے زائد لگ سکتے تھے، تو اس کا حل کیا ہو؟۔۔۔یہ مشکل سویڈن کی ایک آئی ٹی فرم ’’نیو ٹیکنالوجی‘‘ نے حل کردی۔اس کے پاس’’گراف ڈیٹا بیس‘‘ کے نام سے ایک سافٹ ویئر موجود تھا جو اس نے آئی سی آئی جیکو دے دیا،جس کے نتیجے میں جو کام چالیس برس میں ہونا تھا،وہ دنوں میں ہونا ممکن ہوگیا۔ آئی سی آئی جے نے ڈیٹا کے ساتھ یہ سافٹ ویئر بھی مختلف ممالک میں موجود اپنے اراکین کو مہیا کردیا اور انہوں نے اپنے اپنے ملک کے جن لوگوں کے نام اس میں موجود تھے، وہ اور ان کی کمپنیوں کے نام الگ کرلئے۔ یہ جرنلسٹک نہیں، خالصتاً ٹیکنیکل کام تھا، جس کے لئے صحافت میں نہیں، کمپیوٹر میں مہارت درکار تھی۔
اب اوبر مایر صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ انویسٹی گیٹو رپورٹنگ تھی۔ کیا حقیقتاً ایسا ہے؟۔۔۔انویسٹی گیٹو رپورٹنگ کا مطلب ہے آپ ایک CLUEکے پیچھے لگتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں اور سٹوری نکال کر لاتے ہیں۔یہاں تو ایسا کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ یہ تو وِنڈ فال(Wind Fall)تھا۔ اندھے کے پیروں کے نیچے بٹیر آگیا تھا۔ ایک نامعلوم شخص نے، جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کون تھا اور اس کے مقاصد کیا تھے، اس نے اوبر مایر کو یہ ڈیٹا دان کیا اور اوبر مایر نے اسے آئی سی آئی جیکو دان کردیا، جس نے آگے اپنے اراکین کو۔۔۔ تو انویسٹی گیٹو رپورٹنگ کہاں ہے؟ یہ تھی پاناما لیکس کی کل کہانی۔ اس کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس حوالے سے مریم نواز کا موقف درست ہے یا اوبر مایر کا؟اور اسے پاناما لیکس کا نام کیوں دیا گیا؟اس لئے کہ یہ معلومات موزیک فونز یکانے خود نہیں دی تھیں( نہ ان کی تصدیق کی ہے) نہ ہی کوئی انویسٹی گیٹو رپورٹر سٹوری نکال کرلایاتھا،بلکہ انہیں کسی نامعلوم شخص نے ہیک کیا تھا اور چونکہ یہ ایک ایسی فرم کے ریکارڈ سے لیک ہوئیں جس کا دفتر پاناما میں ہے، اس کا نام پاناما لیکس مشہور ہوگیا،یعنی وہ انکشافات جو پاناما میں قائم ایک فرم کے دفتر سے چوری ہوئے۔ اگر یہ فرم لندن میں ہوتی تو اِسے لندن لیکس کا نام دیا جاتا اور اگر پیرس میں ہوتی تو پیرس لیکس کا۔وزیر اعظم اور ان کی فیملی نے کس طرح اس معاملے میں Over React کیا، میڈیا نے جس پر اب بھی غیر صحافی اینکرز کا غلبہ ہے، کس طرح اسے اُچھالا، شریف فیملی کے وُکلاء نے اسے کس طرح مِس ہینڈل کیا اور اس حقیقت کو Establish نہ کرسکے کہ وزیر اعظم کے بیانات اور بعد میں پیش ہونے والی دستاویزات میں کوئی تضاد نہیں، یہ ایک الگ داستان ہے، جس کے لئے الگ مضمون درکار ہے۔

مزید :

کالم -