شاکر شجاع آبادی: دیال سنگھ کالج میں

شاکر شجاع آبادی: دیال سنگھ کالج میں
شاکر شجاع آبادی: دیال سنگھ کالج میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میری خواہشات، وسیم بادامی کے سوالوں کی طرح معصومانہ ہوتی ہیں۔ شاکر شجاع آبادی سے ملاقات ہوئی تو میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ انہیں گورنمنٹ دیال سنگھ کالج کے اساتذہ کرام کے روبرو لابٹھایا جائے جو شاعری کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے ہیں، چنانچہ مَیں نے شاکر کے میزبان، جمیل ارشد کے سامنے اپنی خواہش رکھ دی۔ انہوں نے شاکر سے بات کی اور بات بن گئی۔ بالکل اسی طرح، جب 2006ء میں، مَیں نے اے ٹی وی کے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد احمد فراز سے کہا تھا کہ مَیں نے نئی موٹر بائیک خریدی ہے ۔ مَیں آپ کو اس پر بٹھا کر لاہور کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔ فراز صاحب نے فوراً ہامی بھر لی تھی اور مَیں فوٹو گرافر نعمت اللہ کو لے کر میزبان ذوالقرنین شاہ کے دولت خانے پر پہنچ گیا۔مَیں نے شاکر شجاع آبادی سے کہا تھا کہ وہ دیال سنگھ کالج کے پرنسپل پروفیسر نعیم اکبر یاسین اور ٹیچنگ اسٹاف کے ساتھ ناشتے پر مدعو ہیں، چنانچہ وہ پورے ساڑھے آٹھ بجے جمیل ارشد اور نذر فرید کے ساتھ کالج آپہنچے۔ ان کی سوزوکی کا ر پر جلی حروف میں ان کا نام لکھا ہوا تھا۔۔۔ مَیں نے پوچھا: ’’آتے ہوئے کوئی دقت تو نہیں ہوئی‘‘؟ تو اپنے ترجمان نذر فرید کے ذریعے سے بولے :’’ نہیں۔۔۔ بلکہ ہم نے جب ایک شخص سے دیال سنگھ کالج کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے پہچان لیا اور کہنے لگا : مَیں آپ سے جادو کی جپھی ڈالنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ مجھے گاڑی سے اتر کراس کی خواہش پوری کرنا پڑی، تب کہیں جاکر اس نے آپ کے کالج کا راستہ سمجھایا۔
شاکر پرنسپل آفس پہنچے تو کالج میں ان کی آمد کی خبر، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے جمع ہوگیا۔ پرنسپل آفس میں، جب شاکر اور دیگر مہمان اپنی اپنی نشست سنبھال چکے تو مَیں نے وہاں موجود تمام پروفیسر صاحبان کا تعارف کرایا۔ وائس پرنسپل پروفیسر قدیر احمد، اسٹاف سیکرٹری غلام مصطفی، آفس انچارج پروفیسر عابد بٹ، پروفیسر سہیل ممتاز اور دیگر اساتذہ کا تعارف کرانے کے بعد پرنسپل نعیم اکبر یاسین کا نام لیا توشاکر کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آگئی۔ شاکر نے اپنے ترجمان نذر فرید کے کان میں کچھ کہا تو نذر بولا:’’شاکر صاحب کہہ رہے ہیں کہ مَیں اسلام آباد کے آئی جی طارق مسعود یاسین کے پاس بیٹھا تھا۔ ان کا نام سن کر مَیں نے کہا تھا کہ ایک آدمی نے تین نام کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ نعیم اکبر یاسین صاحب آپ نے بھی یہی کام کیا ہے۔
شاکر کی اس بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی نے سب کو حیران کردیا۔ لوگ تو سمجھے تھے کہ شاکر کوئی مردہ دل آدمی ہوگا جو ہر وقت رونے دھونے کی باتیں کرتا ہوگا، لیکن یہاں تو معاملا ہی الٹ نکلا۔ بیماری اور دکھ کے باوجودشاکر مسکرانا جانتا ہے۔ نہ صرف مسکرانا جانتا ہے ، بلکہ دوسروں کو ہنسانا بھی جانتا ہے ۔ جب سب لوگوں کی طرف سے ان کی شگفتہ مزاجی کو سراہا گیا تو شاکر نے کہا:’’اس دور میں ہنسنا مشکل ہے، رونا آسان ہے‘‘۔ پھر نذر فرید کی زبانی یوں گویا ہوا:’’رلانے والے بہت ہیں، ہنسانے والے بہت کم ہیں‘‘۔۔۔اسی محفل میں ایک اور بات کا انکشاف ہوا کہ شاکر شجاع آبادی جیسے رند کے ہاتھوں د و غیر مسلم، اسلام قبول کرچکے ہیں۔ دونوں کا تعلق ملتان سے ہے۔ انہوں نے ایک عیسائی کو مسلمان کیا اور ایک ہندو کو۔
ہنسنے ہنسانے کی بات چلی تو ہمارے پرنسپل صاحب کہاں چپ رہنے والے تھے۔ جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں ہوا کرتے تھے، تب بڑے بڑے مشہور شاعروں کے اشعار کی برجستہ پیروڈی کیا کرتے تھے۔ دیال سنگھ کالج میں، ان کی مشقِ ستم کا نشانہ میری مسکین شاعری ہے۔ میری تازہ غزل کا مطلع سنتے ہی انہیں پیروڈی کا دورہ پڑجاتا ہے اور ان کی پیروڈی سن کر مجھ پر غش طاری ہو جاتا ہے ، کیونکہ پیروڈی میرے شعر سے کہیں زیادہ بلیغ اور جاندار ہوتی ہے۔۔۔ لیکن شاکر شجاع آبادی کے سامنے انہوں نے مجھے معاف کردیا اور اقبال کو جکڑ لیا۔ بولے:
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
شاکر کا جہاں اور ہے شکرے کا جہاں اور
تحریف شدہ شعر سن کر شاکر پھڑک اُٹھا۔ پہلے پہلے تو شہادت کی انگلی کھڑی کرکے خوب داددی، پھر میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا:’’ شکرا یہ بیٹھا ہے جس نے مجھے دیال سنگھ کالج بلالیا ہے‘‘۔
شاکر کی انصاف پسندی اور دیانت داری دیکھئے کہ جب مَیں نے وہاں موجود احباب کو بتایا کہ شاکر شجاع آبادی واحد پاکستانی ہے، جسے دو دفعہ پرائیڈ آف پرفارمنس ملا ہے، تو اس نے اشارے سے مجھے ٹوک دیا اور نذر فرید کی زبانی بتایا کہ مہدی حسن اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو بھی دو،دو دفعہ پرائیڈآف پرفارمنس مل چکا ہے۔ گویا پورے پاکستان میں صرف تین آدمی ہیں، جنہیں دو دو دفعہ پرائیڈ آف پرفارمنس مل چکا ہے۔
ایک موقع پر نذر فرید نے بتایا کہ اس کے نام کے آخر میں بودلہ آتا ہے تو شاکر نے بہت مزے لے لے کر کہا :’’بو اور دلہ کے درمیان وقفہ بہت ضروری ہے۔ اسی محفل میں شاکر شجاع آبادی نے بتایا کہ ایک باراسے ڈاکوؤں نے روک لیا، لیکن جب ڈاکوؤں کو پتا چلا کہ مَیں شاکر شجاع آبادی ہوں تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ جب پوچھا گیا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں تو کہا: ’’ دو بیٹے، دو بیٹیاں۔ایک بیٹے کا نام نوید شاکر ہے اور دوسرے کا نام ولید شاکر: مَیں نے کہا آپ کا یہ تیسرا بیٹا بھی تو ہے، نذر فرید؟ تو جواب دیا :’’ یہ فرید نہیں مزید شاکر ہے اور پھر جمیل ارشد خطاط کو مخاطب کرکے کہا، یہ یزید شاکر ہے، جس نے مجھے اتنی شدید گرمی میں لاہور بلوالیا۔شاکر کی زندہ مزاجی کا یہ عالم ہے کہ جب کسی نے پوچھا کہ آپ جوانی میں بہت رنگین مزج رہے ہوں گے تو کہا :’’مَیں اب بھی رنگین مزاج ہوں‘‘۔
ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد شاکر شجاع آبادی کو کالج کے اسٹاف روم میں لے جایا گیا ، جہاں بہت سے اساتذہ کرام ان کا کلام سننے کے لئے ان کا انتظار کررہے تھے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شاکر صرف سرائیکی میں شاعری نہیں کرتے، وہ اُردو، پنجابی، رانگڑی اور میواتی زبان میں بھی شعر کہتے ہیں اور اس محفل میں انہوں نے ہر زبان میں شعر سنائے۔ شاکر سے زیادہ حیرت مجھے اس کے ترجمان نذر فرید بودلہ پر ہے کہ اسے شاکر کا تقریباً سارا کلام یاد ہے اور وہ بالکل اسی طرح سناتا ہے ، جس طرح خود اس نے کہا ہو۔

مزید :

کالم -