اس دورِ تلاطم میں مہاتیر سے ملنا
تحریر:میاں عبد الشکور(صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان)
مہاتیر محمد سائیڈ والے دروازے سے اندر داخل ہو ئے،کمر بالکل سیدھی چہرے پہ بشاشت، انہوں نے ہال میں بیٹھے وفد کے ہر شخص سے فرداّ فرداّ ہاتھ ملایا۔ُمصافحہ کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا، ان کے ہاتھ کی گرفت میرے ہاتھ سے زیادہ مضبوط تھی۔ بانویں (92) سال کی عمر میں وزارت عظمی پہ دوبارہ فائز ہونے والا یہ فرد طلسماتی شخصیت کا مالک ہے۔ نوّے کی دہائی میں مہاتیر نے ملائیشیا کی معیشت کی بحالی اور ملکی خودداری کے قیام میں لا زوال کردار ادا کیا تھا۔
سب سے ہاتھ ملانے کے بعد وہ اپنی کُرسی کی طرف بڑھے اور جوانوں کی سی پھُرتی سے اس پر بیٹھ گئے۔
UNIW کے وفد میں ڈاکٹر علی کرُد کی سربراہی میں ہم آٹھ لوگ آئے تھے۔ یہ تنظیم دنیا بھر کی مسلم این جی اوز کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے جو مشترکہ جدوجہد کے لئے سب کو رہنمائی اور رابطہ کاری کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ اسکا ہیڈ کوارٹر استنبول ترکی میں ہے۔UNIW میں تقریباً ساڑھے تین سو مسلم این جی اوز شامل ہیں۔ الخدمت کا صدر UNIW کا جوائنٹ سکریٹری اور ساؤتھ ایشیا کا نمائندہ ہوتا ہے۔
یونیو کی لیڈرشپ نے ملائیشیا کے نو منتخب وزیر اعظم مہاتیر محمد اور دو سال بعد متوقع وزیراعظم انور ابراہیم سے ملاقات کا پروگرام ترتیب دیا۔(انور ابراہیم سے ملاقات کا احوال اگلی قسط میں) ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملاقات کے تین مقاصد تھے۔
• انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر ایک بار پھر فائز ہونے کی مبارک اور مسلم دنیا کی ان سے وابستہ امیدوں کی انہیں یاد دہانی۔
• یونیو کے نیٹ ورک، اس کے کام کی وسعت اور تفصیلات سے آگاہی۔
• مسلم رضاکار تنظیمیں (این جی اوز) جو کام کر رہی ہیں اُن کی ترجیحات کے تعین میں ان سے رہنمائی کی طلبی۔
جب ڈاکٹر علی کُرد UNIW کی سرگرمیوں سے آگاہ کر چُکے تو ڈاکٹر مہاتیر محمد گویا ہوئے۔ ہمیں نوجوانوں میں برداشت اورتحمل کا کلچر پروان چڑھانا ہے اور اس کام کے لئے قرآن کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ صرف برکت اور ثواب کے لئے نہیں،قرآن سمجھنے کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ملائیشیا مختلف قومیتوں اور مذاہب کا ملک ہے، یہاں ملائیشین بھی ہیں،چائینیز بھی ہیں اور انڈین بھی۔ یہ ملک مسلمانوں کا بھی ہے، بدھوں کا بھی، عیسائیوں اور ہندؤں کا بھی لیکن اللہ کا شکر ہے یہاں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا ، ہم نے برداشت کے کلچر کو فروغ دے رکھا ہے۔
موقع ملنے پر میں نے عرض کی ڈاکٹر صاحب ابھی حال ہی میں سری لنکا کے گرجاگھروں میں ایسٹر کے تہوار پر جو دہشت گردی ہوئی ہے، مسلم ممالک کے سربراہوں خاص طور پر ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کو زیادہ متحرک کردار ادا کرنا چاہئیے تھا۔بالکل اُسی طرح کا جرآت مندانہ کردار جیسا نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے جمعہ کے روز مساجد پر دہشت گرد حملے کے بعد ادا کیا۔میں نے یہ بھی گزارش کی کہ مسلم ممالک کا ایک اعلی سطحی وفد سری لنکا جانا چاہیے جو حکومت اور عیسائی کمیونیٹی سے اظہار ہمدردی اور یکجہتی کرے۔ مہاتیر مسکرائے اور کہا مجھے آپ کی تجویز سے اتفاق ہے تاہم مسلم ممالک کا کسی بات پر اتفاق آسان کام نہیں۔ ہاں ترکی، ملائیشیا اور پاکستان اس کام کے کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔مسلم نوجوانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہمارے اندر سے جو پاگل اس طرح کی دہشت گردی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دراصل مسلم ایجنڈے پہ نہیں یہودی ایجنڈے پہ کام کر رہے ہوتے ہیں اورمسلم یوتھ کو اس سازش سے پوری طرح باخبر رہنا چاہئے۔
انہوں نے کہا مسلم ممالک کی این جی اوز کو اپنے کام میں تعلیم کے فروغ کو اولیّت دینی چاہئے۔ تہذیبوں کی یہ جنگ علم اور برداشت کے بغیر کسی طور لڑنا ممکن نہیں۔
تحائف کے تبادلے کے ساتھ یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔ مہاتیر ہم سے رخصت ہوئے تو میں سوچتا رہا۔ بانوے (92) سال کا یہ نوجوان اپنی سوچ، فکر اور منصوبہ عمل میں کتنا یکسو ہے۔
اس دورِ تلاطم میں مہاتیر سے ملنا
ہو جیسے ملاقات مسیحا و خضر سے
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔