ٹکر مار کے ویکھ لے
بھائیو تے بہنو
سجنو تے مترو
سوہنو تے سوہنیو
بس جاگدے رہنا
تے ساڈے تے نہ رہنا، پنگا لیا ہے تو ٹینشن لینے کیلئے بھی تیار رہو۔یہ کیا کورونا کارونا بھی رونا ہے اور لاک ڈاؤن بھی نہیں ماننا۔ یہ بتا دوں آپ کورونا کو ایزی لے رہے ہیں۔ بے شک یہ چائینہ سے آیا ہے پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دونمبر ہے اب بھی کہے دیتا ہوں کہ بچ موڑ توں، بعد میں ٹکور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں جیسے تیسے کرکے یہ وقت گزارنا ہے۔ لاک ڈاؤن کھل بھی جائے تو زیادہ اوقات سے باہر نہیں ہونا۔ یاد رکھیں آنے والے دنوں میں اس موذی مرض نے اپنی اصل اوقات دکھانی ہے بھر پور حملہ کرناہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اس بات پر شوخے ہوتے رہیں کہ کورونا نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا اور کورونا ہمیں گٹے گوڈوں سے لے دے جائے۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ ہفتہ سے کورونا کے لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئی ہے اور کہا یہ بھی گیا ہے کہ ہفتہ، اتوار لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں ہوگی۔ سردار سنتا سنگھ آئینے کے سامنے آنکھیں بند کرکے کھڑا تھا۔ بنتا سنگھ نے پوچھا تو بولا دیکھ رہا ہوں کہ میں آنکھیں بند کرکے کیسے لگتا ہوں، ہوسکتا ہے کپتان جی ہفتے کو لاک ڈاؤن پر عمل کروا کے دیکھ رہے ہوں کہ اگلے ہفتے کی سختی پر یہ کیسا لگے گا۔ شکر ہے مشن کورونا کے ہیرو فیاض الحسن چوہان ٹھیک وقت پر ایکشن میں آئے۔ ان کے مطابق جمعہ، ہفتہ، اتوار لاک ڈاؤن سخت ہوگا۔ ورنہ ہم نے تو لنگوٹ کس لیا تھا کہ ہن موجاں ای موجاں چار چفیرے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کی میڈیا میں اچھی علیک سلیک ہے، لیکن وزیراعلیٰ بزدار نے بھی پنجاب کو بے آسرا نہیں چھوڑا اور اگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کورونا پر کسی حد تک قابو پا لیا ہے تو اس کا کریڈٹ بہرحال وزیراعلیٰ بزدار کو جاتا ہے۔ بنتا سنگھ کافی دیر سے اپنی موٹی بیوی کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس نے شرما کر کہا بنتا جی کیا دیکھتے ہیں۔ بنتا سنگھ بولا یہ دیکھ رہا ہوں کہ زندگی میں پہلی بار کوئی انوسٹمنٹ دیکھتے ہی دیکھتے ڈبل ہوگئی ہے۔ پنجاب میں وسیم اکرم پلس کی شکل میں انوسٹمنٹ ڈبل ہوگئی ہے اب کا کا بہادر چھّیاں چھّیاں چل نہیں رہا دوڑ رہا ہے بلکہ رستے میں آنے والوں کی چاہے وہ وزیر وینگا چبا ہو یا چیف سیکرٹری سب کی دوڑ لگوا رہا ہے۔چند دنوں میں مزید وزیروں کا بھی بولو رام ہونے جارہا ہے۔وسیم اکرم پلس کا سٹینما مضبوط ہوگیا، اب ذرا اچھی ڈیلیوریز سے عوام کی مشکلات بھی حل کردیں تو کیا ہی بات ہے۔ہمیں امید ہے کہ وہ سب جنجھنٹوں سے فارغ ہوگئے اب ان کی پرفارمنس کی باری ہے۔
پتہ نہیں کس منحوس نے چھوٹے بھیا کویہ یقین دلایا تھا کہ وہ لندن کے دریائے سٹیمزکے کنارے ترچھی ٹوپی اور کوٹ میں واک چھوڑ کے پاکستان آجائیں۔ وزارت عظمیٰ ان کا انتظار کر رہی ہے۔ یہاں آکر معلوم ہوا وزارت عظمیٰ تو دور عظمیٰ بخاری بھی ان کی منتظر نہیں۔ نیب کو ان سے وہی محبت ہے جو بلی اور چوہے کے درمیان ہوتی ہے۔ بلی ہلکا سے پنجا مارتی ہے پھر چوہے کو دیکھتی رہتی ہے۔ جیسے ہی ”کن سن وٹا“ چوہا بھاگنے لگتا ہے بلی پھر پنجا مار دیتی ہے۔ ابھی ایک کیس رکتانہیں دوسرا تیار ہو جاتا ہے۔ کیس نہ ہوا ”بھابھی ٹھلا“ ہوگیا۔ سنتا سنگھ بس میں چڑھا دھکے کھاتا کھاتا لیڈیز گیٹ تک پہنچ گیا۔ وہاں سے دھکے پڑے تو گرتا گراتا پچھلے گیٹ پر آگیا۔ اس نے کنڈیکٹر کو روک کر کہا جے میری اینج واک کرانی اے تو فیر مینوں تھلے اتار دیو میں پیدل ہی چلا جاؤں گا۔ پتہ نہیں نیب کو بھی چسکا پڑ گیا ہے۔ سوال و جواب کا جو آتا ہے اسے نیا سوالنامہ تھما دیتے ہیں۔ اب سنا ہے میاں صاحب کو بہاولپور میں جعلی الاٹمنٹ کا سوالنامہ تھما دیا ہے۔ خیر ہمارا یقین ہے کہ جو نیب کے پاس گیا وہ محفوظ ہوگیا۔اس نے بس تھوڑی بہت کت کتاریاں کرکے ملزم کی دندیاں شندیاں کڈاکے چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ یہ وہ بزم نہیں ہے کہ جہاں سے جو نکلے پریشاں نکلے۔ میں تو کہتا ہوں کہ جس پہ نیب کا کیس بنا یا تو وہ وزیر بنا یا پھر بیرون ملک کا سفیر بنا۔ بڑی برکت ہے ہمارے نیب میں یہ چاہے ڈنگ نہ مارے لیکن اس کی شوکر ایسی ہے کہ بڑے بڑوں کا دم نکل جائے۔ فیصل آباد کی ایک عمر رسیدہ اماں سے کسی نے پوچھا ماں جی یہ کچی آبادی ہے۔ وہ بولیں پت ٹکر مار کے ویکھ لے۔ ہم اندر سے کسی اماں سے زیادہ باحیا باپردہ اور مشورہ انگیز ہیں۔ نیب کو جو ایزی لیتے ہیں انہیں پھر کبھی چین ملتا ہے نہ ایزی لوڈ۔ نیب سے پنگا کیچڑ میں کشتی جیسا ہوتا ہے آپ چاہے جتنا پارسا ہوں لیکن اتنے گندے ہو جاتے ہیں کہ لے رب دا ناں۔ اللہ بچائے نیب سے اور نیب کیسز سے، شاہد خاقان ٹھیک کہتے ہیں کہ نیب کو بند کر دینا چاہئے تاکہ آسانی سے کسی خوف کے انی پائی جاسکے۔میں تو کہتا ہوں یہ عدالتیں کورٹ کچہریاں سب بند ہونی چاہئیں اور منّا بھائی کو گج وج کے کوٹ مار کا موقع ملنا چاہئیے۔
میڈیا پہ بہت مشکل وقت ہے اور پیمرا شاہ مدار کی طرح لٹھ لے کے پیچھے پڑگیا ہے۔نیو ٹی وی کی بندش بہت تکلیف دہ ہے۔رہی بات انٹرٹینمینٹ اور نیوز چینل لائسینس کی تو بھی نیوز سے زیادہ انٹرٹینمنٹ کیا ہوگی۔لیکن بس دلہن پسند نہ ہو تو آٹا گوندھتے ہلتی بھی بری لگتی ہے۔لائیسنس تو پارلیمنٹس کو عوامی خدمت کا ملتا ہے اور وہاں سے نشر کیا ہوتا ہے دنگا فساد گالم گلوچ سازشیں۔انہیں کون سنبھالے گا۔حکومت اتنے پنگے لے جتنے آگے جاکے بھگت سکے۔شاہ ہمیشہ اپنے احمق طرفداروں کی کیتیوں پہ پھنستا ہے۔وزیراعظم خود اس معاملے کو دیکھیں یہ صرف لائسنس کا مسئلہ نہیں کئی ہزار کارکنوں کی روزی روٹی کا معاملہ بھی ہے