عوام ایس او پیز کے نفاذ میں تعاون کریں
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے برخود غلط، غیر سنجیدہ اور مبنی براستہزا رویوں کی بدولت نومبر دسمبر 2019ء میں سر ابھارنے والے وائرس،جسے کورونا اور جس کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماری کو ”کووِڈ19“ کا نام دیا گیا،اس کی دوسری اور تیسری لہر میں نہ صرف اضافہ ہوا، بلکہ اس موذی وائرس کے نتیجے میں ہمارے ہاں ہزاروں ہنستے کھیلتے افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ چین، امریکہ، اٹلی، فرانس، برطانیہ، جاپان اور دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور بھارت بھی ظاہر ہے اس کی لپیٹ میں آئے بغیر نہیں رہے، اگرچہ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں ہونے والی اموات کی شرح مذکورہ بالا ممالک کے مقابلے پر الحمد للہ خاصی کم ہے، لیکن اگر احتیاط کے تقاضوں اور حکومت کے وضع کردہ ایس او پیز پر سوفیصد عمل کر لیا جاتا تو شاید یہ صورت حال مختلف ہوتی۔ جب ہم روزانہ کی بنیادوں پر شرح اموات کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں توکامل اطمینان تو نہیں، مگر اس کے باوجود اظہار تشکر ضرور کیا جاتا ہے اور اس کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اور اس اظہار تشکر پر مہر تصدیق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کے پاکستان کی سرزمین پر ایس او پیز کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا اعتراف ہے، جس میں انہوں نے برملا کہا کہ دنیا کورونا سے نمٹنا پاکستان سے سیکھے۔یہ اعتراف انہوں نے 2020ء اگست کے وسط میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں کیا جب کورونا اپنی سنگینی اور وسعت کے اعتبار سے بے قابو ہو چکا تھا۔
ماہرین صحت نے اس وقت بھی اور بعدازاں مختلف اوقات میں یہ پیشین گوئیاں شروع کر دی تھیں کہ خدانخواستہ اس کی اگلی لہر دنیا بھر کے معصوم عوام کی زندگیوں میں زہر گھولے گی، لہٰذا پیش بندی کے طور پر احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز نئے سرے سے وضع کر لئے جائیں، لیکن افسوس صد افسوس دنیا کے ترقی یافتہ حتیٰ کہ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے پر بھی ہمارے ہاں غیر سنجیدہ رویوں کو ترک نہیں کیا گیا۔صرف لاہور کے بازاروں میں بے پناہ رش کے باعث کورونا وائرس میں 20فیصد اضافے کا امکان ظاہر ہونا شروع ہو گیا۔پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ سردار عثمان کی بار بار کی جانے والی اپیلوں کے باوجود نہ ایس او پیز پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور نہ ہی ماسک کے استعمال کی پابندی کی جارہی ہے۔ تاجر حضرات اور دکاندار بھی عثمان بزدار سے تعاون کرتے نظر نہیں آتے، مجبوراَ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو طاقت کے استعمال کا سہارا لینا پڑتا ہے تو بُرا بھلا پھر پنجاب حکومت کو کہا جاتا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے ایک طرف کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے افسران کوچین سے نہ بیٹھنے کا حکم دے رکھا ہے، جبکہ دوسری طرف انہوں نے اس موذی وائرس سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے ویکسین سینٹر قائم کر رکھے ہیں، جہاں بغیر کسی تردّد اور تکلف کے ویکسین لگوائی جا سکتی ہے،لیکن ایسے بھی ہیں جنہوں نے کورونا ویکسین کو نہ صرف ایک سازش سے تعبیر کیا ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ویکسین کا کوئی فائدہ نہیں سب مبالغہ آرائی اور جھوٹ ہے۔ گیلپ سروے کے مطابق دس میں سے چار پاکستانیوں نے اپنے شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔
کورونا جس طرح وطن ِ عزیز میں پنجے گاڑ رہا ہے خدشہ تھا کہ حکومت لمبی مدت تک کے لئے لاک ڈاؤن کا حکم جاری کر سکتی ہے، لیکن محض 8 سے 16مئی تک اسے نافذ کر کے اچھا فیصلہ کیا گیاہے، کیونکہ حکومت کو عوام کی حالت کا بھی بخوبی اندازہ ہے، مکمل اور طویل المدتی لاک ڈاؤن بہت سی قباحتیں پیدا کر سکتا تھا، لیکن جس طرح عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بہتر نتائج کے لئے بعض اوقات سخت فیصلے بھی کرنے پڑ جاتے ہیں، جس طرح کورونا وائرس کے نتیجے میں اموات ہو رہی ہیں، اگر مرکز یا پنجاب نے ایسا فیصلہ کر لیا تو اس کا ذمہ دار ہمارے عوام کے سوا اور کوئی نہیں ہو گا،جن شہروں میں کورونا کی شرح آٹھ فیصد تک ہے، وہاں ایس اوپیز کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ دوسری جانب ہیلتھ کمیشن اور ماہرین صحت کو نہ صرف خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں،بلکہ انہیں خصوصی الاؤنسز بھی دئیے ہیں اور یہ الاؤنسز مستقبل میں بھی دئیے جاتے رہیں گے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ہسپتالوں کو آکسیجن بغیر کسی تعطل کے فراہم کی جاتی رہے گی۔ اندریں حالات امید کی جائے گی کہ نہ صرف ایام عید الفطر،بلکہ بعدازاں بھی عوام الناّس پنجاب حکومت سے کورونا ایس او پیز کے حوالے سے تعاون کریں گے۔ سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھیں اور ماسک کے استعمال کو بھی شجر ممنوعہ نہیں سمجھیں گے۔ چند روزہ مستعار زندگی کو انجوائے کریں نہ کہ برباد۔
فاعتبرو یا اولی الابصار