تصادم نہیں حکمت عملی جناب!! 

 تصادم نہیں حکمت عملی جناب!! 
 تصادم نہیں حکمت عملی جناب!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 موسم چل رہا ہے جلسوں کا ہر روز جلسے ہو رہے ہیں۔ اقتدار سے تازہ تازہ محروم ہونے والی پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسے تو سمجھ میں آتے ہیں مگر نئی نئی حکومت کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ بھی جلسہ جلسہ کھیلنے کو میدان میں اتر آئی ہے۔ اب اپوزیشن کے پاس تو رونا دھونا بہت ہے۔ مظلومیت اور محرومیت کی داستانیں بھی بہت ہیں مگر حکمرانوں کے پاس کہنے کو کیا ہے۔ سوائے وعدوں کے، وزیر اعظم نے اپنے کپڑے بیچ کر بھی عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے تک کا اعلان کر دیا ہے۔ حاضرین سے نعرے لگوانے کے لئے اس سے زیادہ کیا کہہ لیں گے۔ جہاں تک جلسوں میں حاضری کا تعلق ہے تو عمران خان اور مریم نواز کے جلسے ہمیشہ ہی ”بھرویں“ ہوتے ہیں۔ انہیں دیکھنے اور سننے کو عوام کا جم غفیر جمع ہو جاتا ہے۔ اب کے تو وزیر اعظم شہبازشریف کے جلسے بھی بھرپور ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن جو بھی جلسہ گاہ منتخب کرتی ہیں عوام اسے بھر دیتے ہیں۔ حکومت نے نہ نہ کرتے بھی انتخابی مہم کا ماحول پیدا کر یا ہے۔ تازہ محروم اقتدار کی تو خواہش ہو گی کہ الیکشن کل کا ہوتا آج ہو جائے لیکن الیکشن کمیشن اور حکومت کے لئے ایسا شائد ممکن نہ ہو۔ الیکشن کمیشن کی وجوہات انتظامی ہو سکتی ہیں اور مسلم لیگ کی سیاسی، عدلیہ کے فیصلوں اور پارلیمینٹ کی کارروائی نے عمران خان کو اقتدار سے باہر کر کے عوام کے اندر پہنچا دیا ہے۔ اس وقت کی ساری سیاسی لاٹ میں عمران سب سے اچھا پرفارمر ثابت ہو رہا ہے۔ ”جوان لک“ اور کپڑوں کی شوخی سے جہاں وہ ایک طرف نوجوان نسل کے قریب محسوس ہوتا ہے تو وہاں ”مذہبی ٹچ“ سے وہ بزرگوں کے لئے بھی قابل قبول ہوتا جا رہا ہے۔

سیاست میں آتے ہی کپتان اپنے کارکنوں میں جنون کا ذکر ضرور کرتا تھا مگر تازہ عوامی رابطہ مہم میں اس کے کارکنوں، جنہیں عرف عام میں یوتھیا کہا جاتا ہے، میں جو جنون نظر آ رہا ہے وہ بھٹو مرحوم کے جیالوں میں بھی کم کم تھا۔ جس طرح گھرانوں کے سربراہ اپنی خواتین اور، نوجوانوں اور بچوں سمیت خان کے جلسوں میں دیوانہ وار پہنچ رہے ہیں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی تھی۔ لاہور کے جلسے میں ایک بزرگ کے کلپ نے تو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کے ساتھ تین بچیاں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میری تین بیٹیاں ہیں میں تینوں کو غلامی کے خلاف اس جنگ میں قربان کرنے کو تیار ہوں۔ سفارتی خط کی حقیقت کچھ بھی ہو، بھلے کپتان کی بیشتر ٹیم امریکی شہری ہو، خواہ خان کے موقف میں تضاد ہی تضاد ہو مگر ”قوم یوتھ“ کو اس پر ایمان کی حد تک یقین ہو چکا ہے کہ وہ نجات دہندہ ہے۔ اسے ایک بار پھر اقتدار میں لانا ہے اور یوں پاکستان بچانا ہے۔ یہ بات بھی یقیناً حیران کن ہے کہ مسلم لیگ ن کے جلسے بھی بھرپور ہیں۔ ہزاروں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ انیس بیس کے فرق سے پی ٹی آئی کے جلسوں کی ٹکر کے جلسے ن لیگ کے بھی ہیں لیکن ایک فرق محسوس کیا جا رہا ہے اور وہ ہے حاضرین کے جوش و خروش کا فرق۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں کپتان کے ایک ایک جملے پر پوری جلسہ گاہ نعروں سے گونج رہی ہوتی ہے اور یہ گونج دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے جلسوں میں میٹھا تھوڑا پھیکا لگتا ہے۔ ان کے جلسوں میں ریسپانس سٹیج کے سامنے سامنے ہوتا ہے اور مقررین کو جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لئے خود نعرے لگوانے پڑتے ہیں۔

کپتان کے جلسے مہم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پشاور، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں خان پہلے ہی بڑے بڑے جلسے کر چکا ہے۔ اب پورا مئی کا مہینہ چھوٹے شہروں میں جلسے ہوں گے جو در اصل اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاری ہے۔ اگر یہ سارا سلسلہ پروگرام کے مطابق مکمل ہوا تو پی ٹی آئی کی جو عوامی حمایت کی لہر پیدا ہو گی اس کے بعد آئندہ عام انتخابات محض ضابطے کی کارروائی ہوں گے۔ ان جلسوں کی کامیابی اور ان میں عوام کی دلچسپی سے حکمران جماعت کے لئے بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر یہ جلسے اسی کامیابی سے جاری رہتے ہیں تو انتخابی کھیل حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوگا اور اگر حکومت کپتان کو میدان سے باہر کرنے کے لئے کوئی قانونی کارروائی کرتی ہے تو عوام کا ردعمل خوفناک بھی ہو سکتا ہے اور امن و امان کی صورتحال ایسی ہو سکتی ہے کہ بوریا بستر لپیٹے جانے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ حکمرانوں کو جو احباب یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ خان کو الیکشن کمیشن سے نا اہل کرا دیا جائے یا کسی عدالت سے سزا دلوا کر پس دیوار زنداں بھیج دیا جائے تو وہ موقع پرست تو ہو سکتے ہیں دوست نہیں۔ اب حکمران پی ڈی ایم کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کسی بھی تصادم سے بچ بچا کر اپنے ممکنہ سیاسی نقصان کو کم سے کم کر لیں۔ ورنہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت مل گئی تو کپتان نے آئین بدل کر سارا پارلیمانی نظام تلپٹ کر دینا ہے اور مطلق العنان صدر، امیر المومنین ٹائپ بننے کی راہ پر چل پڑنا ہے۔ اس کی صحت بھی بظاہر اچھی ہے اور سیاست بھی عروج پر ہے۔ مقابلے کی خواہشمند قوتیں ابھی سے اپنی حکمت عملی کا جائزہ لے لیں۔

مزید :

رائے -کالم -اداریہ -