صدارتی انتخابات اور امریکہ کا مستقبل(2)

صدارتی انتخابات اور امریکہ کا مستقبل(2)
صدارتی انتخابات اور امریکہ کا مستقبل(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ کے بہت سے صدور ایسے تھے، جن کا تعلیمی پس منظر کوئی اتنا قابلِ رشک اور شاندار نہیں تھا۔ بہت سے ایسے بھی تھے جن کا تعلق فوج سے رہا تھا اور فوجیوں کی رسمی تعلیم کا حال کسے معلوم نہیں؟....
لیکن کاروبارِ خسروی چلانے کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سیاستدان کوئی دانشور ہی ہو اور اس نے بہت ساری ڈگریاں سمیٹ رکھی ہوں اور فوج بھی ایک محدود پیمانے پر پورا ایک معاشرہ ہے، اس کے رینکس اینڈ فائلز گویا اس کے عوام اور اس کا کمانڈر گویا اس کا صدر یا ”بادشاہ“ ہوتا ہے، چنانچہ کاروبار شاہی یا صدارتی ٹرم چلانے اور گزارنے میں سابق فوجیوں کو سویلین حکمرانوں پر ایک نوع کی فوقیت (Edge) حاصل ہوتی ہے۔ فوجی کا رینک اور اس کے عسکری تجربے کی طوالت، اسے جہانبانی کے بہت سے آداب سکھا دیتی ہے.... امریکی صدر آئزن ہاور ایک ایسا ہی صدر تھا جو ایک سابق فوجی تھا اور امریکی عوام نے جسے دوبار (1952ء۔ 1956ءمیں) اپنا صدر منتخب کیا۔
ستمبر 1939ءمیں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو آئزن ہاور نیا پروموٹ شدہ لیفٹیننٹ کرنل تھا اور دسمبر 1941ءمیں پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد جب امریکہ بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا تو اس کا رینک بریگیڈیئر تھا۔ پھر اسی جنگ کے دوران وہ پانچ ستاروں والا جرنیل اور تمام اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر بنا۔ جنگ کے بعد 1945ءمیں اسے امریکی فوج کا چیف آف سٹاف بنایا گیا۔ وہ فروری 1948ءتک اس عہدے پر فائز رہا۔ اس کے بعد اسے ریٹائر کر دیا گیا، لیکن دسمبر 1950ءمیں ری کال کر کے ناٹو فورسز کا سپریم کمانڈر مقرر کیا گیا۔ وہاں سے ریٹائر ہوا تو امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیاں اس پر دباو¿ ڈالتی رہیں کہ وہ ان کی پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بنے، لیکن وہ بار بار انکار کرتا رہا،تاہم 1952ءمیں اس نے فوج میں اپنے کمیشن سے استعفا دے دیا، ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کی حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور صدرِ امریکہ منتخب ہوگیا۔ وہ 8 برس تک صدر رہا اور جب ریٹائر ہوا تو اپنے الوداعی خطاب میں اس نے چند ایک ایسی باتیں بھی کہیں جو امریکی مستقبل کے لئے ایک وارننگ تھیں۔ یہ باتیں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل تھیں، لیکن امریکی قوم نے اس کی نصائح پر چنداں دھیان نہ دیا۔ اس سابق فوجی کے جانے کے بعد جتنے بھی صدور آئے ، وہ آئزن ہاور کی نصیحت کے برعکس عمل کرتے رہے۔(صدر اوباما بھی ان میں شامل ہیں۔) آئزن ہاور نے 1961ءمیں وائٹ ہاو¿س سے رخصت ہوتے ہوئے یہ نصائح ان الفاظ میں کی تھیں:
”ہماری معاشرتی زندگی میں ”ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس“ کی قوت اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے....اور یہ کوئی نیک شگون نہیں۔ ہمیں اپنے اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی رویوں میں فوج اور گھریلو معاملات کے مابین ایک بہتر توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہماری ڈیفنس انڈسٹری زیادہ منافع کمانے کی تلاش میں ہماری خارجہ پالیسی کو خمدار کر دے گی، لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر پر حکومت کا حد سے بڑھا ہوا کنٹرول بھی معاشی جمود کا باعث بن سکتا ہے۔ جنگوں کے لئے ہماری نہ رکنے والی لگاتار تیاریاں ہماری قومی تاریخ سے لگاّ نہیں کھاتیں۔ جنگ و جدال کی ہماری دوامی کوششیں قومی زندگی کے ایک بڑے حصے کو چاٹ رہی ہیں اور قوم کی روحانی صحت کے لئے خطرناک حد تک نقصان دہ ہیں“۔
 قارئین! ذرا غور فرمائیں کہ ایک ایسا شخص جس کی ساری زندگی فوج میں گزری ہو، چالیس برس سے زائد مدت تک وہ کمانڈ، سٹاف اور انسٹرکشن کےمختلف عہدوں پر کام کرتا رہا ہو، اپنی فوج کا ہی نہیں، آزاد دنیا کی تمام افواج کا سپریم کمانڈر رہا ہو اور 8 سال تک قصرِ صدارت میں بسر کئے ہوں تو اس کو تو چاہئے تھا کہ وہ جنگ کی حمایت کرتا۔ قوم سے کہتا کہ زیادہ اسلحہ بناو¿، زیادہ منافع کماو¿ اور معاشی طور پر امریکہ کو زیادہ خوشحال بناو¿.... لیکن وہ ایسا نہیں کرتا اور کہتا ہے :”کاروبارِ جنگ پر زیادہ زور دینا، قوم کی روحانی صحت کے لئے مُضر ہے!“.... لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی معاشرے نے اپنے اس محسن کی نصیحت پر عمل کیوں نہ کیا اور اس کی وارننگ کی کوئی پروا کیوں نہ کی؟.... آئزن ہاور کے بعد جو امریکی بھی صدر منتخب ہوا، اس نے اس ”آئزن ہاور ڈاکٹرین“ کی کھل کر خلاف ورزی کی اور آج بھی کر رہا ہے۔
چند روز پہلے، مَیں نیویارک ٹائمز میں اوکونل (O, Connell) کا ایک مضمون دیکھ رہا تھا.... اوکونل میرین کور کا ایک سابق فوجی افسر ہے۔ آج کل امریکی نیول اکیڈیمی میں، جو ریاست میری لینڈ میں ایناپولس کے مقام پر واقع ہے، اسسٹنٹ پروفیسر ہے اور نیول کیڈٹوں اور دوسرے زیر تربیت افسروں کو ”عسکری تاریخ“ پڑھاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ” ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے خلاف جو فہمائش آئزن ہاور نے قوم کو کی تھی، اس پر کوئی کان نہ دھرا گیا۔ گزشتہ برس (2011ءمیں) امریکہ نے دفاع پر 700 ارب ڈالر خرچ کئے۔ یہ رقم دنیا بھر میں دفاع پر خرچ کی جانے والی تمام رقوم کا تقریباً نصف ہے، لیکن ہماری اقتصادی حالت بتدریج روبہ زوال ہے۔ دفاعی پیداوار کے شعبے میں اگرچہ کئی ایجادات ہوئی ہیں اور ان ایجادات کا بالواسطہ فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہم نے بیش بہا پیش رفت کی ہے۔ مثلاً انٹر نیٹ، سویلین جوہری قوت اور GPS نیوی گیشن سسٹم وغیرہ بنائے ہیں۔ امریکہ کی ڈیفنس انڈسٹری آج ایک عظیم اور فلک بوس انڈسٹری بن چکی ہے جس سے بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے، لیکن ساتھ ساتھ اس کے منفی نتائج بھی ہیں جو نہایت نقصان دہ ہیں“۔
کانگریس کے بیشتر اراکین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر دفاعی پیداوار میں کمی کی گئی یا ہوگئی تو بے روزگاری میں اضافہ ہو جائے گا، تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی خارجہ پالیسی کا زیادہ تر انحصار، مسائل کے عسکری حل پر رہا ہے۔ 2003ءمیں عراق کی پہلی جنگ ہوئی تھی۔ تب امریکی پبلک کو یہ نوید دی گئی تھی کہ اس جنگ کے بعد تیل کی قیمتیں کم ہو جائیں گی، لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ 1945ءکے بعد امریکہ کے دفاعی پیداوار کے ٹھیکے داروں اور کرائے کے ریٹائرڈ فوجیوں نے خوب جیبیں گرم کیں اور اربابِ اختیار نے جی بھر کے من مانیاں کیں۔ جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور نیشنل سیکیورٹی کونسل نے صدر سے جو کچھ کروانا چاہا، کروایا۔ ہاں بعد میں قواعد و ضوابط کی پاسداری کے لئے رسماً صدر کی سمریوں/ سفارشات پر انگوٹھا ضرر ثبت کروایا۔
 اوکونل نے آگے چل کر لکھا ہے:”صدر آئزن ہاور نے مسلسل جنگی تیاریوں کے نتیجے میں جن روحانی اور اخلاقی اقدار کا گلا گھونٹے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، اس کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ ہے۔ آئزن ہاور کے بعد کا دور بہت زیادہ حد تک ملٹرائز ہو چکا ہے اور اس کے ذمہ دار فوجی نہیں، سویلین ہیں“۔
اوکونل کا یہ تجزیہ درست ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان ہمیشہ اپنی افواج کی سپورٹ میں یک زبان رہتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام کے نمائندے کثیر دفاعی اخراجات کے حق میں ہیں۔ امریکی میڈیا کو سنیں یا پڑھیں تو وہ اپنے فوجیوں کی دلیری اور جنگجوئی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتا۔ عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ امریکہ کی مسلح افواج اپنا خون دے کر مادرِ وطن (Mainland) کا دفاع کرتی ہیں۔ بندہ پوچھے کہ یہ افواج کس حملہ آور کے خلاف دفاع کر رہی ہیں کہ وہ خود حملہ آور ہیں۔ ہر دو تین برس بعد ایک نیا محاذ کھولنا، نئے ملک پر حملہ کرنا اور اس کو تہس نہس کر دینا، کیا مادرِ وطن کا دفاع ہے؟.... دوسری عالمی جنگ کے بعد تو امریکہ یہ کھیل بڑے تواتر سے کھیل رہا ہے اور اس کھیل کے بڑے بڑے کھلاڑی وہ لوگ ہیں جن کے مفادات ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے وابستہ ہیں۔ جو نہی دفاعی پیداوار کی کسی آئٹم کی فروخت کم ہوتی ہے اور برآمدی آرڈرز موصول ہونے میں کمی آنے لگتی ہے تو صدر امریکہ اور اس کا خاص ”حلقہ¿ احباب“ مادرِ وطن کی حفاظت کی راگنی چھیڑ دیتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جلد سے جلد کسی ایسے ملک پر حملہ کیا جائے، جہاں سے تیل اور معدنیات کی دولت حاصل کی جاسکے۔ ان کو اس بات کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ کتنے امریکی ٹروپس اس حملے میں ہلاک ہوتے یا زخمی ہو کر عمر بھر کے لئے اپاہج اور معذور ہو جاتے ہیں اور کتنے ”دشمن فریق“ کے ٹروپس اس جنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں....ان کو تو اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے اور بس!!
مَیں نے ان کالموں میں کئی بار یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ گزشتہ عشرے میں امریکی اور ناٹو افواج نے جتنے مسلم ممالک کو تاخت و تاراج کیا ہے، ان کی معدنی دولت کا حساب لگایا جائے اور معلوم کیا جائے یہ حملہ آور امریکی اور یورپی اقوام کیا کیا کچھ لوٹ کر لے گئی ہیں۔ نجانے مسلم میڈیا کیوں اس سوال پر خاموش رہتا ہے؟.... عراق، لیبیا اور افغانستان سے جو تیل اور جومعدنیات مغرب کو جارہی ہیں، اس کا ذکر نہ تو کسی الیکٹرانک میڈیا پر کیا جاتا ہے اور نہ ہی پرنٹ میڈیا اس موضوع پر کوئی تحقیقی رپورٹ شائع کرتا ہے۔ مغربی ممالک کی سینکڑوں این جی اوز ہمارے جیسے ممالک میں مختلف لایعنی موضوعات کی دن رات چھان بین کرتی رہتی ہیں، لیکن کیا کوئی ایسا یورپی یا امریکی این جی او بھی ہے جو یہ اعداد و شمار اکٹھے کرے اور میڈیا پر عام کرے کہ عراق اور لیبیا سے گزشتہ برسوں میں جو تیل نکالاگیا، وہ کس کس مغربی ملک کے ”حصے“ میں آیا اور کتنا کتنا آیا؟....روزانہ کتنے آئل ٹینکر بھر بھر کر کہاں لے جائے جا رہے ہیں اوران کی مالیت کیا ہے؟.... افغانستان، لیبیا اور عراق سے کتنی اور کون کون سی معدنی دولت چپکے چپکے سمیٹی جا رہی ہے؟....
پاکستان کے کسی نیوز چینل یا کسی اردو/ انگریزی اخبار نے بھی آج تک اس موضوع کو ہاتھ نہیں لگایا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ عصرِ حاضر کے مغربیلٹےروں کے ہاتھوں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک لٹ رہے ہیں اور ان لٹنے والوں میں مسلم ممالک پیش پیش ہیں۔
مجھے لگتا ہے مسلم اُمہ ایک ایسی عورت سے جس کے کئی خاوند ہیں۔ یہ خاتون خاصی خوبصورت، لحیم شحیم اور موٹی تازی بھی ہے۔ اسے روزانہ خاوندوں سے مار پڑتی ہے اور یہ مار کھا کھا کر ڈھیٹ ہو چکی ہے۔ جس روز کوئی شوہر اس سے لطف اندوز ہونے کے باوصف اس کو مارتا پیٹتا نہیں، اس کا بدن دُکھنے لگتا ہے:
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے
    (جاری ہے)    ٭

مزید :

کالم -