محمد رفیع بٹ کی یاد میں

محمد رفیع بٹ کی یاد میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عظمتوں کے چند لمحات پوری بے نام زندگی کے مقابلے میں سرمایہ ہوتے ہیں۔۔۔ ہم قیام پاکستان کیلئے محمد علی جناحؒ اور ان کے باہمت ساتھیوں کی ذات کے ممنون ہیں جو ان کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے قائد اعظمؒ کی پکار پر صدائے لبیک بلند کی اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ۔ انھوں نے قائد اعظم کے پیغام کو برصغیر کے چاروں کونوں میں پھیلایا اور مسلمان قوم کو ایک علیحدہ مملکت کے حصول کیلئے بیدار کیا۔ صحیح معنوں میں وہی لوگ سچے مجاہد تھے ، جدوجہد آزادی میں ہراول دستے کے سپاہی۔اپنے مشن کے حصول کیلئے ان لوگوں نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کی اور اپنی سماجی ذمہ داریوں پر سمجھوتہ کر لیا ۔ اسی باہمت گروہ کے سرخیل ایک نوجوان صنعت کار محمد رفیع بٹ بھی تھے ۔ رفیع بٹ 1909 کو لاہور میں حصار شہر کے قریب ایک گنجان آباد علاقے نیون کاترہ نزد اکبری منڈی میں پیدا ہوئے ۔ والد کی جلد وفات کے باعث انھیں محض سولہ سال کی عمر میں ہی گھریلو ذمہ داریوں کا کٹھن بار اٹھانا پڑا۔اپنے سلیقے اور کاروباری گتھیوں کو مہارت سے سلجھانے کی صلاحیتوں کی بنا پر جلد ہی انھوں نے اپنے آبائی کاروبار کو ایک بڑی کاروباری سلطنت میں بدل دیا۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی کاروباری دنیا میں ہندوؤں کی اجارہ داری ہو یقیناًیہ ایک مثالی کامیابی تھی۔


انھوں نے برمنگھم میں واقع کیننگ کروم اور کیمیکل فیکٹری (Canning's Chrome and Chemical Factory)میں سٹیل انڈسٹری کی ایڈوانس تربیت حاصل کی اور واپس آکر فیروز پور روڈ پر جدید خطوط پر ایک فیکٹری قائم کی ۔ یہ وہی فیکٹری ہے جس کا قائد اعظم نے 1942 میں دورہ بھی کیا تھا ۔اس کے بعد رفیع نے بینکنگ سیکٹر میں قدم جمانا شروع کئیے اور 1936 میں لاہور میں سینٹرل ایکسچینج بینک کی بنیاد رکھی جو شمالی ہندوستان میں پہلا مسلم بینک تھا ۔1930ء کے عشرے کے آخری سالوں میں محمد رفیع بٹ کا قائد اعظم سے رابطہ شروع ہوا اور قائد کی کرشماتی شخصیت، ان کے عزم مصمم اور مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کیلئے ان کی انتھک لگن نے محمد رفیع بٹ کی ذات پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ اس دن سے لے کر اپنی زندگی کے آخری دن تک جناب رفیع قائد اعظم کے ہمیشہ پرجوش حامی اور مسلم لیگ کے سرگرم اور مخلص کارکن رہے۔ قائد اعظم سے ان کی خط و کتابت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس عظیم شخصیت سے کتنا متاثر تھے ۔ رفیع ایک روشن تصورات کے مالک انسان تھے ۔ انھوں نے قائد اعظم کو متعدد بار کئی اہم مسائل پر بروقت اور مفید مشوروں سے نوازا ۔ مثال کے طور پر انھوں نے مسلم لیگ کی پالیسیوں کی ترویج و اشاعت کیلئے قائد اعظم کو لاہور میں ایک بہترین روزنامہ اخبار شائع کرنے کی تجویز دی؛ کانگریس کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کیلئے نیویارک میں ایک پبلسٹی سیل کے قیام کا مشورہ دیا؛ پلاننگ کمیٹی کیلئے کئی نامور ماہرین معیشت کے ناموں سے روشناس کرایاتاکہ ملک کی اقتصادی ترجیحات کو امریکن خطوط پر استوار کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک انڈسٹریل اور کمرشل فنانس کارپوریشن کے قیام کی بھی تجویز دی۔رفیع اپنے تمام سیاسی فیصلوں میں قائد اعظم کی مشاورت لیتے تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ قائد اعظم ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو کانگریس اور ہندوؤں کے پنجہ استبداد سے مسلمانوں کو نجات دلا سکتے تھے۔ جناب رفیع بٹ اس بات پہ کامل یقین رکھتے تھے کہ صنعتی پیش رفت کے بغیر پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت کی ترقی کی بنیادنہیں رکھی جا سکتی ۔پاکستان کی اقتصادی ترقی ہمیشہ آپ کی سوچ بچار کا محور رہی ۔جناب رفیع ہمیشہ اس بات کیلئے کوشاں رہے کہ مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوں اور اپنی صنعت کو فروغ دیتے ہوئے اسے بیرونی ممالک کے معیار تک پہنچائیں۔مسلمان اقتصادی دوڑ میں بہت پیچھے تھے اور ان کے ہاں حقیقی سائنسدانوں کی تو افسوسناک حد تک کمی تھی۔

ایک دور اندیش صنعت کار کی حیثیت سے وہ برطانوی استعمار کی نفسیات اور مسلمانوں سے ان کے گہرے تعصب کوخوب سمجھتے تھے ۔ ان کی تقریروں اور بیانات سے اندازہ کی جاسکتا ہے کہ وہ کتنے پر جوش انداز میں مسلمانوں کی تعمیر و ترقی کیلئے ہمیشہ پرعزم رہے اور پاکستان کی معاشی اور صنعتی بنیادوں کو استوار کرنے کیلئے انھوں نے ٹھوس تجاویز دیں۔وہ بڑے پر زور انداز میں کہا کرتے تھے کہ"پاکستان کی منزل کے حصول کے بعدہمیں اپنی بیشتر توانائیاں سیاسی طاقت کے حصول میں ضائع کرنے کی بجائے معاشی مسائل کو حل کرنے کرنے میں خرچ کرنی چاہئیں۔اور یہ کہ ہمیں امریکیوں کے بہتر زندگی کیلئے زیادہ لوگوں کیلئے زیادہ پیداوار کے عملی اصول پر عمل کرنا چاہئیے، یہی ایک اصول ہے جس پر چلتے ہوئے ہم ایک عام آدمی کی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔ " امریکہ کے چھ ماہ کے مطالعاتی دورے سے واپسی پر انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "مسلمانان ہند کو اپنے ملک کی اقتصادی تعمیر نو کیلئے اپنے آپ کو تیار کر لینا چاہئے۔ اگر اب بھی وہ نہیں جاگے توانھیں منزل تک لے جانے والی گاڑی پیچھے چھوڑ جائے گی، انھیں چاہئیے کہ اپنے اقتصادی وسائل کو متحرک کریں اور اگر انھیں واقعی اپنی ٹھوس اقتصادی بنیادوں کو استوار کرنا ہے تو جدید زمانے کا مقابلہ کرنے کیلئے اور نئے دور میں داخل ہونے کیلئے اپنے ہاں کاروباری انجمنوں اور اقتصادی رابطہ کونسل قائم کرنا ہوں گی ۔


"پنجاب سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان پر قائد اعظم کو گہرا اعتماد تھا ۔ انھوں نے رفیع صاحب کو مسلم لیگ پلاننگ کمیٹی کا ممبر بنایا اور مائننگ اور میٹالرجی(Mining and Metallurgy) کی سب کمیٹی کے چیئرمین کی اضافی ذمہ داریاں بھی سونپیں۔ جناب رفیع غالبا وہ پہلے دوراندیش منصوبہ ساز تھے جنھوں نے اس ملک کی مستقبل میں تیز رفتار معاشی ترقی کو دھات سازی(Metals) سے منسلک کیا۔رفیع صاحب ہمیشہ بامقصد مطالعاتی دورے کیا کرتے تھے ۔1945-46 کے دوران انھوں نے امریکہ کے صنعتی ڈھانچے(industrial structure) کو سمجھنے کیلئے ایک مطالعاتی دورہ کیا۔1946 میں ہندوستان کے ایک صنعتی وفد کے رکن کی حیثیت سے انھوں نے جرمنی کا دورہ کیا__اس وفد میں ان کی شمولیت سے اس وقت صنعت کے میدان میں ان کے قد کاٹھ کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ 1948میں انھوں نے سان فرانسسکو میں آئی ایل او سیشن (ILO Session)میں شرکت کی۔انھوں نے ذاتی حیثیت سے پاکستان کو سٹیل پہنچانے کیلئے برطانوی بورڈ آف ٹریڈ (UK Board of Trade)سے بھی رابطہ کیاجس کی پاکستان میں اس وقت اشد ضرورت تھی۔
رفیع کی زندگی بہت تھوڑی تھی ۔ وہ 1948میں ایک فضائی حادثے کے نتیجے میں خدا کو پیارے ہو گئے جبکہ اس وقت تک انھوں نے زندگی کی محض 39 بہاریں ہی دیکھی تھیں۔ ایک ممتاز سماجی شخصیت ہونے کے ناطے جناب رفیع کی دوستیاں نسلی اور ثقافتی سرحدوں سے بالا تر ہوتی تھیں۔ ان کے دوست مختلف معاشرتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے تھے اور وہ سب میں ہر دل عزیز تھے ۔ان کے نزدیک جناب رفیع ایک پروقار اور اپنی ذاتی جدوجہد سے کامیابی حاصل کرنے والی (self-made)ایسی شخصیت تھے جنھوں نے پنجاب کی معاشی تاریخ میں ابتدائی مسلمان صنعتکار کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ افلاطون کی دھات کے پس منظر میں دی جانے والی تشبیہات (Plato's allegory of metals)میں فلاسفر حضرات انسان کی سونے ، چاندی اور سیسہ کے گروپوں میں درجہ بندی کرتے ہیں۔ جناب رفیع اپنی منصوبہ بندی میں مہارت کے اعتبار سے سونا تھے ۔ اور اپنی گرمجوش طبیعت اور احترام آدمیت کے اعتبار سے بھی سونا تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بے شک وہ اپنی مسلسل وفاداری واخلاص اور بے غرض خدمت کے جذبے کے اعتبار سے بھی سونا تھے۔ محمد رفیع بٹ کی کہانی آج کے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہونی چاہئیے۔

مزید :

کالم -