انصاف کی بالادستی
میدان میں بہت بڑا مجمع لگا ہوا تھا ۔ لوگ کافی تعداد میں اکٹھے ہوچکے تھے۔ ہر شخص کے چہرے پر تجسس تھا۔ ان سب کی آنکھیں کسی کے انتظار میں تھیں اور بار بار سامنے والے چبوترے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اتنے میں ایک بڑی گاڑی میدان میں داخل ہونے والے دروازے پر آ کر رکی، گاڑی کا دروازہ کھلا پہلے مسلح دو شرطے یعنی پولیس والے گاڑی کے دروازے سے نیچے اترے ان کے ساتھ ہی ایک شاہی خاندان کا شہزادہ بھی کانپتی ٹانگوں کے ساتھ گاڑی کی سیڑھیوں سے نیچے اُترا گیا۔ پولیس والوں نے اس کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ شہزادے کے گاڑی سے اترتے ہی پورے مجمعے پر خاموشی چھا گئی۔ سناٹا طاری ہو گیا۔ لوگ دم بخود یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد اس میدان کے اندر پورے مجمعے کے سامنے شہزادے کی گردن اڑائی جانے والی تھی۔
یہ واقعہ سعودی عرب کے ایک مشہور شہر کا ہے۔ اس شہر کا نام ریاض ہے۔جو سعودی حکومت کا دار الخلافہ بھی ہے۔یہ شہر صوبہ نجد میں واقع ہے۔ریاض میں ایک مقام دیرہ کے نام سے ہے، جہاں ایک کھلا میدان ہے۔ اس میدان کو بعض لوگ میدان عدل کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ مجمع میں موجود سب لوگوں کی نظریں شہزادے کی طرف اٹھیں۔ سب لوگ شہزادے کو ایک نظر دیکھنا چاہتے تھے۔ شہزادے کا نام شہزادہ ترکی بن سعود الکبیر تھا۔ یہ شہزادہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان کا قریبی عزیز تھا۔ آج اس شہزاد ے کو اس میدان میں سر قلم کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں تلوار کے ذریعے شہزادے کا سر تن سے جدا کیا جانا تھا۔ لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ شہزادے پر الزام تھاکہ اس نے عادل المجید نامی نوجوان کو قتل گیا ہے۔ اسی جرم کی پاداش میں سعودی پولیس حرکت میں آئی اور شہزادے کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہزادے پر فرد جرم عائد ہوئی۔ عدالت میں مقدمہ چلا جرم ثابت ہو گیا۔سعودی سپریم کورٹ نے جرم ثابت ہونے پر شہزادے ترکی کو سزائے موت کا حکم سنادیا۔عدالت نے اس بات کی پروا نہ کی وہ کون ہے کس کا رشتہ دار ہے۔ کیونکہ قانون کی پاسداری عدلیہ کا فرض ہے۔ سر قلم کرنے کا دن اور وقت متعین کر دیا گیا۔
اسلام میں دیت کاقانون بھی موجود ہے جس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر قاتل مقتول کے ورثائسے معافی مانگے، مقتول کے خون کا معاوضہ دے کر صلح کرنا چاہے اور مقتول کے ورثاء اس پر رضامندی کے ساتھ آمادہ بھی ہو جائیں اور قاتل اس بات پر ان کا شکرگزار ہو تو قاتل کو معاف کیا جا سکتاہے۔لیکن معافی کا حق صرف مقتول کے ورثاء کو ہے، صاحب اقتدار کو نہیں۔ خبر ہے کہ قاتل نے کثیر رقم ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔قاتل کے تمام اعزہ شاہی خاندان کے لوگ تھے انہوں نے دیت پر ان کو آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن مقتول کے ورثاء ان کی اس پیشکش پر آمادہ نہ ہوئے۔چنانچہ مجرم کا سر قلم کرنے کی حتمی تاریخ اور وقت مقرر ہو گیا۔ قاتل کو وقت مقررہ پر میدان عدل میں لایا گیا۔ چبوترے پر کھڑا کیا گیا۔ پھر جلاد کو بلایا گیا۔ قاتل کے جرم کا اعلان ہوا کہ اس نے فلاں دن فلاں وقت ایک نوجوان کوگولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ جرم ثابت ہونے کے بعد آج اس قاتل پر قصاص کی حد جاری کی جا رہی ہے۔ قرآن کی آیت تلاوت کی گئی:
’’ولکم فی القصاص حیواۃ یا اولی الالباب‘‘
’’اے عقل مندو! قصاص لینے میں تمہارے لیے زندگی کا راز پنہاں ہے۔‘‘
اس کے بعد پورے مجمعے پر سناٹا طاری ہو گیا۔ جلاد نے چمکتی تیز دھار تلوار نکالی ہوا میں لہرائی اور ایک ہی وار میں قاتل کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا۔
قصاص کا قانون حدود اللہ میں سے ہے۔ یعنی یہ سزا اللہ کی مقرر کی ہوئی ہے۔ حدود اللہ میں کوئی شخص کمی بیشی کرنے کا مجاز نہیں۔ یہ اسلامی قوانین ہی ہیں، جن کی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی شرح پوری دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔پاکستان میں عدالت عظمیٰ کے ایک جج تھے ان کا نام جسٹس اے آر کارنیلیس تھا۔عیسائی تھے۔ ان کے زمانے میں ایک بین الاقوامی جیورسٹ کانفرنس سڈنی میں منعقد ہوئی۔ پاکستان کی نمائندگی بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس کارنیلیس نے کی اور کانفرنس میں مقالہ پڑھا۔ اس مقالے میں انہوں نے دنیا کے تمام چیف جسٹس صاحبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری عمر قانون کی گتھیاں سلجھاتے گزری ہے۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا میں امن قائم کرنا چاہتے ہو تو اسلامی قوانین نافذ کرو۔ امن کا انحصار اسلامی تعلیمات ہی میں ہے۔ ایک عیسائی قانون دان کی زبان سے یہ الفاظ سن کر سب حاضرین انگشت بدندان ہو گئے۔ خبروں کے مطابق بہت سے عیسائیوں نے ان کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ لیکن حق حق ہے۔ایک عیسائی جج نے جو محسوس کیا اس کا برملا اظہار کر دیا۔