ڈونلڈٹرمپ کامیاب وکامران ، امریکی میڈیا حیران وپریشان ، مبصرین تجزیہ نگاروں رائے عامہ کے جائزہ کاروں کو شکست فاش
واشنگٹن (اظہر زمان، بیوروچیف) امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف ڈیمو کریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو ہرا کر مبصرین کی اکثریت کے تجزیوں کو غلط ثابت کر دیا جو نتیجے کے برعکس پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کی پارٹی کے مائیک پنس 48 ویں نائب صدر منتخب ہوگئے۔ انتخابی نتائج کے بعد ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کر کے کامیابی پر مبارکباد پیش کی ۔ امریکہ کے 45ویں صدر کو منتخب کرنے کے لئے پولنگ کا آغاز روایتی طور پر ریاست نیو ہیمپشائر کے 3قصبوں سے ہوا جہاں ووٹر اجتماعی طور پر پولنگ سٹیشنز پہنچے اور انہوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جس کے بعد مختلف ریاستوں میں بتدریج ووٹنگ ہوئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے اپنے شوہربل کلنٹن کے ہمراہ نیویارک میں اپنی رہائشگاہ کے قریب واقع ایلیمنٹری سکول میں ووٹ کاسٹ کیا۔ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی نیویارک میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ووٹ کاسٹ کیا۔ کیسا اتفاق ہے کہ موجودہ صدر بارک اوباما نے جسے ’’امریکی تاریخ کا نااہل ترین امیدوار‘‘ قرار دیا تھا وہ وائٹ ہاؤس پہنچ گیا۔ بالواسطہ صدارتی انتخابات میں عام یا پاپولر ووٹ شمار نہیں ہوتے بلکہ تمام 50 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی کی آبادی کے اعتبار سے الاٹ کردہ الیکٹورل کالج کے ارکان کا چناؤ ہوتا ہے اور کل 538 ارکان پر مشتمل الیکٹورل کالج کی کم از کم سادہ اکثریت 270 ارکان کی حمایت حاصل کرنے والا صدر منتخب ہو جاتا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 289 الیکٹرول ووٹ حاصل کئے جبکہ ہیلری کے حامی منتخب ارکان کی تعداد 218 سے نہ بڑھ سکی۔جیسا کہ ہم نے سابقہ تجزیوں میں واضح کیا تھا کہ اگرچہ پنسلوینیا اور ورجینیا ڈیمو کریٹک جھکاؤ والی نیلی ریاستیں ہیں لیکن ٹھوس نیلی نہیں جہاں ٹرمپ نے زبردست کام کر رکھا ہے۔ ہیلری کلنٹن کو جیتنے کیلئے ان دو ریاستوں کو بچانا ہوگا جن کے مجموعی الیکٹورل ووٹ 33 ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے کافی اتار چڑھاؤ کے بعد بالآخر ورجینیا کے تیرہ ووٹ حاصل کرلئے لیکن پنسلوینیا کو نہیں بچا سکیں جہاں سخت مقابلے کے بعد بالآخر معمولی ووٹوں سے ہار گئیں اور انتہائی قیمتی 20 الیکٹورل ووٹ کھو دئیے۔ اس کے بعد فتح یا شکست کا آخری فیصلہ درمیان میں لٹکتی، ’’میدان جنگ‘‘ کی 11 جامنی ریاستوں اور خصوصاً نارتھ کیرولینا، فلوریڈا اور اوہائیو میں ہونا تھا جن کے سب سے زیادہ بالترتیب15، 29 اور 18 ووٹ تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے خلاف توقع ان تینوں ریاستوں کے علاوہ زیادہ تر جامنی ریاستوں میں معمولی ووٹوں سے کامیابی حاصل کرلی اور اس طرح اپنی آخری فتح کو یقینی بنا لیا۔ صدارتی انتخابات میں فتح و شکست کے تجزیے ہوتے رہیں گے لیکن ٹرمپ کی کامیابی کا ایک بڑا سبب خصوصاً اندرونی ریاستوں میں کم آمدنی والے کم تعلیم یافتہ سفید فام قدامت پسند ووٹر بنے جو تارکین وطن کو ناپسند کرتے ہیں جسے ٹرمپ نے بخوبی کیش کرلیا۔ ہیلری کلنٹن کی ناکامی کا ایک سبب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ای میلز کے مسئلے پر وہ عام ووٹروں کو پوری طرح مطمئن نہ کرسکیں اور ایف بی آئی کی طرف سے اسے کلین چٹ بھی بہت دیر سے ملی اورتب تک بہت نقصان ہوچکا تھا تاہم ہیلری کلنٹن نے عام ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ حاصل کئے۔ گزشتہ روز دوپہر تک ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق ہیلری کے پاپولر ووٹ 417.6 فیصد (58,909,774) اور ٹرمپ کے پاپولر ووٹ 417.5 فیصد (58,864,233) تھے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اریزونا11، الاسکا3، وسکونسن10، پنسلوینیا20، اوٹاہ6، آئیووا6، جارجیا16، فلوریڈا20، نارتھ کیرولینا15، اڈاہو4، اوہائیو18، میسوری10، مونٹینا3، لوزیانا8، ارکنساس6، کنساس6، وائیومنگ3، نارتھ ڈیکوٹا3، ساؤتھ ڈیکوٹا3، ٹیکساس9، ویسٹ ورجینیا5، انڈیانا11، کنٹکی8 میں (تقسیم شدہ ایک ووٹ)، نیبراسکا (تقسیم شدہ 4 ووٹ) حاصل کئے جبکہ ہیلری کلنٹن کو نیواڈا6، اوریگن7، واشنگٹن12، واشنگٹن ڈی سی3، ہوائی4، کیلیفورنیا55، کولوریڈو3، ورجینیا13، نیو میکسیکو3، کنکٹی کٹ7، نیو یارک29، اینی نوائے20، میری لینڈ10، نیو جرسی14، ہاروڈ آئی لینڈ4، ڈیلاویئر3، ورماؤنٹ3، میساچیوسٹس11، مین Main (تقسیم شدہ تین ووٹ)، نیبراسکا، (تقسیم شدہ ایک ووٹ)مل سکا۔
امریکی انتخابات
واشنگٹن (اظہر زمان، بیورو چیف) نامزد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فتح کی تقریر میں پوری قوم کے صدر بن کر ہر مذہب، نسل، رنگ اور پس منظر والے شہری کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم کیا ہے لیکن وہ صدارت سنبھالنے کے بعد کیا تبدیلیاں لے کر آئیں گے یہ ان کی دستاویزات میں موجود ہے جو ان کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی ہوئی ہیں۔ ’’امریکہ کو عظیم بنانے کے لئے ٹرمپ کا پہلے سو دن کا منصوبہ‘‘ کے نام سے دستاویز میں اس منصوبے کی بڑی بڑی باتوں کا ذکر ہے۔ اس دستاویز کو ٹرمپ اور امریکی ووٹر کے درمیان ایک معاہدہ قرار دیا گیا ہے جس کے ذریعے واشنگٹن میں دیانت داری، محاسبے اور تبدیلی کی بحالی کی جائے گی۔ سو دن کے منصوبے کے تحت کرپشن کے خاتمے کیلئے چھ اقدامات کئے جائیں گے، امریکی محنت کشوں کے تحفظ کیلئے سات کارروائیاں کی جائیں گی اور سکیورٹی کی بحالی اور آئینی قانون کی حکمرانی کیلئے پانچ اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے تحت وائٹ ہاؤس کے حکام کو بیرونی حکومتوں کیلئے لابی کرنے کی زندگی بھر کے لئے پابندی لگا دی جائے گی۔ بیس لاکھ سے زائد جرائم پیشہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔ بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے پر از سر نو بات چیت کی جائے گی۔ شمالی امریکہ کے درمیان تجارت کے معاہدے نیفٹا (NAFTA) پر بھی نئے سرے سے مذاکرات کئے جائیں گے۔ وزیر خزانہ کو حکم دیا جائے گاکہ وہ کرنسی کے غلط استعمال کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی، صدر اوبامہ کے تمام ’’غیر آئینی‘‘ احکامات کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ محفوظ پناہ گاہوں والے شہروں کو فراہم کیا جانے والا فنڈ ختم کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ صدارت کے پہلے سو دن کے دوران ’’وسیع تر قانون‘‘ سازی کے جو اقدامات کریں گے۔ جو قوانین وہ کانگریس کے سامنے منظوری کیلئے پیش کریں گے ان میں ٹیکسوں میں ریلیف، آف شور کمپنیوں کو ضابطے میں لانا، توانائی اور انفراسٹرکچر کا ایکٹ، تعلیم میں انتخاب اور مواقع فراہم کرنے کا ایکٹ اور اوبامہ کیئر ایکٹ کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم آپس میں تقسیم کے زخموں کو بھر کر ایک متحد قوم کی طرح آگے بڑھیں۔ انہوں نے اپنی فتح یابی کی تقریر میں بتایا کہ ہیلری کلنٹن نے انہیں کامیابی کی مبارک باد دی ہے جنہوں نے زور دار اور سخت انتخابی مہم چلائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ میں اب تمام امریکیوں کا صدر ہوں اور میں تمام شہریوں سے عہد کرتا ہوں جن میں مجھے ووٹ دینے اور نہ دینے والے سبھی شامل ہیں کہ ہم مل کر امریکہ کو ترقی دیں گے اور یہ بات میرے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے تھوڑی دیر بعد اپنی شکست تسلیم کرنے والے خطاب میں امریکیوں پر زور دیا کہ وہ کبھی ان اقدار کو ترک نہ کریں جن کے لئے انہوں نے اتنی جدوجہد کی ہے۔ ہیلری کلنٹن کی آمد پر ان کے مداحوں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا جن میں سے بیشتر کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے تھے۔ انہوں نے ٹرمپ کا ذکر کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وہ کامیاب صدر ثابت ہوں گے۔ ہمیں انتخابی نتائج تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کی طرف دیکھنا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ٹرمپ سے کھلے ذہن کے ساتھ پیش آئیں اور اسے قوم کی قیادت کرنے کا موقع دیں۔ انہوں نے اپنے حامیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ ہے آپ کو کتنی مایوسی ہوئی اور یہ تکلیف طویل عرصے تک رہے گی لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مہم کسی ایک شخص کو دبانے کیلئے نہیں تھی۔ یہ مہم اس ملک کیلئے تھی جسے ہم سب محبت کرتے ہیں اورجسے ہم مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ملک جو امید سے وابستہ ہے جو ہر ایک کو اپنے میں شامل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے اور جس کا دل کتنا بڑا ہے۔ مجھے امریکہ پر پورا یقین ہے اور یہ ہمیشہ رہے گا۔
ٹرمپ/ہیلری