پنجاب پولیس کے ہزاروں افسرو ملازمین سنگین مقدمات کے باوجود اپنی سیٹوں پر براجمان
لا ہو ر ( رپورٹ: محمد یو نس با ٹھ)پنجاب پولیس کے ایس ایس پی سے لیکر سپا ہی تک ہزاروں ملازمین سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہونے کے باوجود اپنی سیٹو ں پر براجما ن رہے اور انھیں ملازمت سے نہیں نکالا گیا اور وہ اثرورسو خ کے بل بو تے پر اپنی ڈیو ٹیا ں سر انجا م دیتے رہے جبکہ پنجاب میں 3ہزار سے زائد پو لیس ملازمین کے خلاف رشوت لینے پر اینٹی کر پشن میں مقد ما ت درج ہو ئے مگر اس کے با وجو اپیلیں کر نے پر انھیں بھی بحا ل کر دیا گیا ۔پنجاب حکومت نے کرپشن میں ملوث سرکاری افسروں اور اہلکاروں کیخلاف کارروائی کا آ غاز کیا ہے اوردرج ہونے والے ایسے مقدمات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔ ڈی ایس پی محمد جہانگیر بٹ اورڈی ایس پی ارشد خا ں، انسپکٹر محمود بھٹی ، انسپکٹرمشتاق احمد، انسپکٹر اللہ دتہ ، انسپکٹر محمد یونس ، انسپکٹر حسنین ،سب ا نسپکٹر ناصر حمید‘ سب انسپکٹر محمد طارق‘ سب انسپکٹر امجد جاوید سمیت متعدد پو لیس افسران کے خلاٖ ف ر شوت لینے پر مقد مات درج ہیں مگرسفا رش کے بل بو تے پر وہ ڈیو ٹی پر مو جود ہیں ۔۔ ایک سا بق ایس ایس پی اور دو ایس پی قمرالزمان اور ایس پی محمد اسلم بھی ایسے پولیس افسران میں شامل ہیں جن کیخلاف اینٹی کرپشن میں رشوت کے مقدمات درج ہوئے۔ مگر وہ بھی ڈیو ٹی پر مو جود رہے ۔ ۔ اب ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبہ بھرمیں تمام سرکاری محکموں میں تعینات ایسے تمام افسروں اور اہلکاروں کو فیلڈ ڈیوٹی سے فوری طور پر ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔جن کے خلاف اینٹی کر پشن میں مقد ما ت درج ہیں۔ذرا ئع کے مطابق پنجاب حکومت نے کرپشن میں ملوث سرکاری افسروں اور اہلکاروں کیخلاف کارروائی کا آ غاز کیا ہے اوردرج ہونے والے ایسے مقدمات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔اس بارے میں ذرائع کے مطابق لا ہور پولیس کے515افسروں اور اہلکاروں کے نام شامل کئے گئے ہیں۔اس بارے میں موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق گزشتہ چند سال کے دوران پنجاب میں3210سرکاری افسروں اور اہلکاروں کیخلاف اینٹی کرپشن اور مختلف تھانوں میں مقدمات درج ہوئے تا ہم اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان افسران اور اہلکاروں میں سے کئی تو ریٹائرڈ ہو گئے جبکہ بعض نے مدعیوں سے مبینہ طور پر صلح کر لی۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب اس پالیسی پر عملدرآمد شروع ہوا تو کئی آفیسر اور ملازمین ریٹائر ہوگئے یا وفات پا گئے ہیں۔سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب‘ چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب‘تمام ایڈ منسٹریٹو سیکرٹریز گورنمنٹ آف پنجاب‘تمام کمشنرز آف پنجاب‘ اکاؤنٹنٹ جنرل آف پنجاب‘ ڈی جی اینٹی کرپشن‘ چیئرمین پنجاب انفارمیشن بورڈ‘پنجاب بھر کے ڈی سی اوز‘ سیکرٹری پنجاب پبلک سروس کمیشن ‘سیکرٹری وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم اور رجسٹرار پنجاب سروس ٹربیونل کو بھجوائی گئی چھٹی نمبر SOEll/S&GAD-14-250کے مطابق اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان سرکاری افسروں اور اہلکاروں پر کڑی نظر رکھی جائے تا کہ وہ کسی بھی طریقے سے دوبارہ فیلڈ ڈیوٹی حاصل نہ کر سکیں جبکہ انہیں کوئی خصوصی اسائنمنٹ بھی نہ دی جائے۔ریٹائرڈ ہونے والے ایسے پولیس افسروں میں سابق ایس ایس پی انوسٹی گیشن لا ہور چودھری شفقات احمد بھی شامل ہیں جن کیخلاف اینٹی کرپشن میں13لاکھ روپے رشوت لینے کا مقدمہ نمبر2/2009درج ہوا۔سابق ایس پی قمرالزمان اور سابق ایس پی محمد اسلم بھی ایسے پولیس افسران میں شامل ہیں جن کیخلاف اینٹی کرپشن میں رشوت کے مقدمات درج ہوئے۔ان دستاویزات کے مطابق پنجاب پولیس کی تاریخ میں ہیروئن خورد برد کا سب سے بڑا اسکینڈل2012میں ہوا جب ڈی ایس پی رائے ونڈ محمد جہانگیر بٹ نے ملزمان سے قبضہ میں لی گئی92کلو اعلیٰ کوالٹی کی ہیروئن خورد برد کر لی۔ان کیخلاف تھانہ رائے ونڈ سٹی میں مقدمہ نمبر282/12درج ہوا اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر اسے گرفتار کر کے جیل بھجوایا گیا۔ڈی ایس پی ارشد خان کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر19/11مورخہ17/10/11کو درج ہوا۔ان کیخلاف رشوت لینے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام تھا۔انسپکٹر ناصر حمید‘ سب انسپکٹر محمد طارق‘ سب انسپکٹر امجد جاوید‘ ہیڈ کانسٹیبل راشد علی‘کانسٹیبل محمد رمضان‘کانسٹیبل وقار انور‘ کانسٹیبل غلام علی‘کانسٹیبل امجد علی‘ کانسٹیبل فیاض احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر7/13اس وقت درج ہوا جب یہ تمام تھانہ گلشن راوی میں تعینات تھے اوران پر الزام تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر گلریز نامی شہری سے47ہزار روپے رشوت لی۔انسپکٹر طیب اشرف کیخلاف اینٹی کرپشن میں2/13مقدمہ درج ہوا۔ان پر ایک لاکھ50ہزار رشوت لینے کا الزام تھا۔انسپکٹر عبدالرزاق اور اکاؤنٹنٹ خالد محمود کیخلاف تھانہ سول لائن میں مقدمہ نمبر937/09درج ہوا۔دونوں پر سرکاری ریکارڈ میں ہیرا پھیری اور غبن کا الزام تھا۔اس مقدمہ کا مدعی ایس ایچ او تھانہ سول لائن تھا جبکہ مقدمہ سی سی پی او کے حکم پر درج ہوا۔انسپکٹر شکیل احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر19/13درج ہوا۔اس وقت وہ ایس ایچ او تھانہ شاہدرہ ٹاؤن تھے۔ان کیخلاف رشوت‘ فراڈ اور ہیرا پھیری کے الزامات تھے۔انسپکٹر محمود بھٹی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر23/13درج ہوا۔ ان کیخلاف رشوت‘ فراڈ اور دیگر الزامات تھے۔انسپکٹر اللہ دتہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر64/13درج ہوا۔ان پر رشوت اور دیگر سنگین الزامات تھے۔انسپکٹر محمد یونس کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر69/13درج ہوا۔ان پر رشوت‘ فراڈ و دیگر الزامات تھے۔انسپکٹرمشتاق احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر15/12 جبکہ انسپکٹر رانا ایاز کیخلاف مقدمہ نمبر37/12درج ہوا۔دونوں پر رشوت کے الزامات تھے۔انسپکٹر جاسم احمد کیخلاف تھانہ ننکانہ میں مقدمہ نمبر3/11درج ہوا۔ان پر سر کاری فائلوں میں ردوبدل کرنے کے الزامات تھے۔انسپکٹر عزیزاللہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر141/8درج ہوا۔ان پر سرکاری فائلوں میں ردوبدل کرنے اور رشوت لینے کے سنگین الزامات تھے۔انسپکٹر حسنین شاہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر34/11درج ہوا۔ان کیخلاف اختیارات سے تجاوز کرنے اور سرکاری فائلوں میں ردو بدل کرنے کے علاوہ رشوت کے الزامات تھے۔انسپکٹر رانا مجاہد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر11/11درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت کے سنگین الزامات تھے۔سب انسپکٹر رضا رحمان کیخلاف2/12مقدمہ درج ہوا۔ان پر60ہزار روپے رشوت لینے کا الزام تھا۔سی آئی ا ے کے سب انسپکٹر محمد اسلم کیخلاف تھانہ نواں کوٹ میں مثل خورد برد کرنے کا مقدمہ نمبر1355/10مورخہ26/11/10کو انسپکٹر شاہ نواز خان کی مدعیت میں درج ہوا۔سب انسپکٹر حاجی محمد کیخلاف تھانہ چوہنگ میں مقدمہ نمبر256/13ایس پی ماڈل ٹاؤن کی مدعیت میں درج ہوا۔اس پر سرکاری ریکارڈ غائب کرنے کا الزام تھا۔سب انسپکٹر حاجی محمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر8/12درج ہوا۔ان کیخلاف ایک شہری محمد اشرف سے رشوت لینے کا الزام تھا۔سب انسپکٹر محمد اشرف کیخلاف تھانہ گجر پورہ میں مقدمہ نمبر102/10درج ہوا ۔اس پر الزام تھا کہ اس نے ملزم فریق سے رشوت لیکر سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کیا۔سب انسپکٹر سہیل اختر اور مشتاق گجر کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر32/12درج ہوا۔دونوں پر ننکانہ کے شہری آصف حبیب اللہ سے85ہزار رشوت لینے کا الزام تھا۔سب انسپکٹر پرویز اختر کیخلاف تھانہ راوی روڈ میں مقدمہ نمبر237/11درج ہوا۔اس کیخلاف غبن کا الزام تھا۔راشد علی سب انسپکٹر کیخلاف تھانہ نشتر کالونی میں مقدمہ نمبر1243/11درج ہوا۔اس کیخلاف فراڈ اور ہیرا پھیری کا الزام تھا۔سب انسپکٹر محمد یا سین اور اسلم کیخلاف تھانہ لیاقت آباد میں مقدمہ نمبر489/12درج ہوا۔دونوں پر فراڈ کا الزام لگا۔سب انسپکٹر محمد یونس کیخلاف تھانہ لٹن روڈ میں غبن کا مقدمہ نمبر512/11درج ہوا۔ اس مقدمہ کے مدعی انسپکٹر محمد جمیل تھے۔سب انسپکٹر عبدالحفیظ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر4/13درج ہوا۔اس مقدمہ کے مدعی ڈاکٹر نوراللہ تھے۔اس پر رشوت کا الزام لگا تھا۔سب انسپکٹر محمد اسلم گھمن کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر32/13درج ہوا۔اس پر رشوت کا الزام تھا۔سب انسپکٹر خالد گجر کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر28/13درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت کا الزام تھا۔سب انسپکٹر محمد اشرف کیخلاف تھانہ گجر پورہ میں مقدمہ نمبر505/11درج ہوا۔ اس کیخلاف کرپشن کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر عامر ندیم کیخلاف تھانہ لٹن روڈ میں زیر دفعہ409مقدمہ نمبر122/12درج ہوا۔سب انسپکٹر محمد عرفان کیخلاف تھانہ ستو کتلہ میں مقدمہ نمبر141/12درج ہوا۔اس کیخلاف کرپشن اور غبن سمیت سنگین الزامات تھے۔سب انسپکٹر ممتاز علی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر106/11درج ہوا۔ اس کیخلاف اختیارات سے تجاوز کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر اللہ دتہ خان کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر32/11درج ہوا۔اس کیخلاف اختیارات سے تجاوز کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر محمد رفیق کیخلاف تھانہ کوٹ لکھپت میں مقدمہ نمبر846/8درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت کے سنگین الزامات تھے۔سب انسپکٹر بشارت اللہ کیخلاف تھانہ پرانی انارکلی میں مقدمہ نمبر129/10درج ہوا۔اس کیخلاف اختیارات سے تجاوز کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر ملک محمد اشرف کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر۵21/12درج ہوا۔اس کیخلاف50ہزار رشوت لینے اور تفتیش غلط کرنے کے الزامات تھے۔سپیشل برانچ کے سب انسپکٹر محمد یونس کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر22/13درج ہوا۔اس کیخلاف اختیارات سے تجاوز کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر ملک محمد یونس کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر72/09درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت‘ غلط تفتیش کرنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر محمد بشیر کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر133/09درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت‘ غلط تفتیش اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر محمد اقبال ڈوگر کیخلاف اینٹی کرپشن ننکانہ صاحب میں مقدمہ نمبر6/10درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت سمیت سنگین الزامات تھے۔سی آئی اے کے سب انسپکٹر محمد رزاق اور داس محمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر59/10درج ہوا۔ان کیخلاف رشوت لینے‘ شہری کو اغوا کرنے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر محمد اسلم کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر82/10درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت لینے اور دیگر سنگین الزامات تھے۔سب انسپکٹڑ بدر منیر کیخلاف تھانہ گلبرگ میں مقدمہ نمبر308/13درج ہوا۔اس کیخلاف غبن اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر مقبول احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر19/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور غلط تفتیش کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر اشرف محمد اشرف کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر55/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت‘ غلط تفتیش اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر عبدالخالق کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر14/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت لیکر غلط تفتیش کرنے سمیت سنگین الزامات تھے۔سب انسپکٹر غلام مصطفی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر44/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام تھے۔سب انسپکٹر رانا محمد صدیق کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر10/12درج ہوا۔اس کیخلاف80ہزار رشوت لینے کا الزام تھا۔سب انسپکٹر محمد اکرم کیخلاف تھانہ بی ڈویژن شیخوپورہ میں مقدمہ نمبر608/12درج ہوا۔اس مقدمہ کے مدعی ڈی ایس پی مرزا قدوس بیگ تھے۔اس کیخلاف اختیارات سے تجاوز کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر علی سبحانی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر52/13درج ہوا۔اس کیخلاف فراڈ‘ غبن اور رشوت کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر محبوب حسین کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر49/12‘رانا اشرف کیخلاف68/12‘محمد ارشد کیخلاف01/12‘محمد نواز کیخلاف79/12‘افتخار احمد کیخلاف23/12درج ہوا۔ان پر رشوت‘ اختیارات سے تجاوز کرنے اور عدالتی فائلوں میں ردوبدل کرنے کے الزامات تھے۔سب انسپکٹر اشرف علی کیخلاف تھانہ صدر ننکانہ صاحب میں مقدمہ نمبر314/13درج ہوا۔اس کیخلاف بھاری رشوت لیکر عدالتی فائل میں ردوبدل کرنے کے سنگین الزامات تھے۔اس مقدمہ کے مدعی سابق ایس ایچ او تھانہ صدر ننکانہ انسپکٹر محمد اسلم تھے۔سب انسپکٹر ابرار حسین کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر48/10درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت لیکر ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی وقار اکبر گھمن کیخلاف مقدمہ نمبر183/09درج ہوا۔ان پر رشوت لینے کا الزام لگا تھا۔اے ایس آئی ریاض احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر17/13مورخہ11/2/13کو درج ہوا۔ان کیخلاف مبینہ طور پر رشوت لینے کا الزام تھا۔اے ایس آئی شہزاد احمد کیخلاف تھانہ نواں کوٹ میں مقدمہ نمبر174/10درج ہوا جس میں مدعی ایس پی اقبال ٹاؤن آپریشن تھے۔اس پر ملزم فریق سے25ہزار رشوت لیکر اس کو فائدہ پہنچانے کا الزام تھا۔اے ایس آئی محمد عاشق کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر43/11درج ہوا۔اس پر رشوت کا الزام تھا۔اے ایس آئی محمد سرفراز کیخلاف تھانہ ٹبی سٹی میں مقدمہ نمبر285/12درج ہوا۔اس پر رشوت کا الزام تھا۔اے ایس آئی وارث علی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر72/12درج ہوا۔ اس کیخلاف رشوت کا الزام تھا۔اے ایس آئی عمر حیات کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر39/13درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت کا الزام تھا۔اے ایس آئی فقیر حسین کیخلاف تھانہ ستو کتلہ میں مقدمہ نمبر647/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت لیکر دفتری ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی مختار احمد کیخلاف تھانہ گلشن اقبال میں مقدمہ نمبر402/13درج ہوا۔اس کیخلاف غبن اور رشوت لینے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی ظفراللہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر8/12درج ہوا۔اس کیخلاف فراڈ‘ غبن اور رشوت کے الزامات تھے۔اے ایس آئی محمد یوسف کیخلاف تھانہ فیروزوالا میں مقدمہ نمبر654/13درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور دیگر سنگین الزامات تھے۔اے ایس آئی اشرف کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر43/13درج ہوا۔اس کیخلاف فراڈ اور رشوت کے الزامات تھے۔اے ایس آئی محمد سلیم کیخلاف تھانہ سمن آباد میں مقدمہ نمبر871/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت سمیت سنگین الزامات تھے۔اے ایس آئی جمشید اقبال کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر01/12درج ہواق۔اس کیخلاف رشوت کے الزامات تھے۔اے ایس آئی وقار اکبر گھمن کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر25/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور غبن کے الزامات تھے۔اے ایس آئی اسلم شفیع کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر76/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی واجد علی گورایہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر85/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت سمیت سنگین الزامات تھے۔اے ایس آئی اختر علی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر35/12درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور غبن کے الزامات تھے۔اے ایس آئی ظہیر عباس کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر145/09درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی فاروق ڈوگر کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر13/13درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت لینے اور ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی محمد اسماعیل کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر29/13درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت سمیت سنگین الزامات تھے۔اے ایس آئی ولایت حسین اور ڈرائیورفرحت حسین کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر176/11درج ہوا۔ان کیخلاف شہری سے بدسلوکی کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔ اے ایس آئی محمد اقبال کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر157/4درج ہوا۔اے ایس آئی آصف ذوالفقار کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر5/9درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت‘ اختیارات کا ناجائز استعمال و دیگر الزامات تھے۔اے ایس آئی جمیل احمد کیخلاف خاتون شہناز بی بی کی مدعیت میں اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر23/9درج ہوا۔اے ایس آئی سرفراز احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر27/11درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت و دیگر سنگین الزامات تھے۔ اے ایس آئی ندیم انور کیخلاف تھانہ پرانی انار کلی میں مقدمہ نمبر473/09درج ہوا۔اس کیخلاف مثل میں ردوبدل کرنے اور رشوت کے الزامات تھے۔اے ایس آئی محمد سلیم کیخلاف تھانہ شادمان میں مقدمہ نمبر232/10درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت سمیت سنگین الزامات تھے۔اے ایس آئی ذاکر حسین کیخلاف تھانہ بھکھی‘ شیخوپورہ میں مقدمہ نمبر950/11درج ہوا۔اس کیخلاف رشوت اور مثل غائب کرنے کے الزامات تھے۔اے ایس آئی محمد علی کیخلاف تھانہ مزنگ میں رشوت اور مثل خورد برد کا مقدمہ نمبر144/12درج ہوا۔سی سی پی او آفس کے کلرک محمد ایوب کیخلاف تھانہ سول لائن میں مقدمہ نمبر14/12درج ہوا۔اس کیخلاف فراڈ اور ہیرا پھیری کا الزام تھا۔عرفان شاہین جونئیر کلرک کیخلاف تھانہ لوئر مال میں مقدمہ نمبر303/13درج ہوا۔اس مقدمہ کے مدعی افتخار احمد اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈی آئی جی آفس لا ہور تھے۔اس پر فراڈ اور ہیرا پھیری کا الزام تھا۔پو لیس لائن میں تعینات کلرک محمد فیض کیخلاف تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں سرکاری ریکارڈ غائب کرنے اور رشوت لینے کا مقدمہ نمبر882/8درج ہوا۔ٹریفک وارڈن محمد اسلم کیخلاف تھانہ چوہنگ میں مقدمہ نمبر909/13 ڈی ایس پی میمونہ رشید کی مدعیت میں درج ہوا۔اس پر فراڈ سمیت متعدد الزامات تھے۔ٹریفک وارڈن محمد عمران اور بشریٰ بتول کیخلاف تھانہ شاہدرہ میں مقدمہ نمبر983/11درج ہوا۔ان پر سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کا الزام تھا اور یہ مقدمہ ڈی ایس پی نیر احمد بٹ کی مدعیت میں درج ہوا۔محمد اکرم ٹریفک وارڈن کیخلاف تھانہ چوہنگ میں فراڈ اور ہیرا پھیری کا مقدمہ نمبر730/11درج ہوا۔اس مقدمہ کے مدعی محمد سہیل خان اکاؤنٹنٹ سٹی ٹریفک پولیس لا ہور تھے۔اصغر عالم ڈرائیور کیخلاف تھانہ غالب مارکیٹ میں رشوت کا مقدمہ نمبر1032/12درج ہوا۔امجد علی ریڈر ایس پی سٹی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر33/11درج ہوا۔اس پر رشوت اور دفتری ریکارڈ غائب کرنے کے الزامات تھے۔رانا محمد شبیر ڈرائیور ایم ٹی ورکشاپ کیخلاف اینٹی کرپشن میں رشوت کا مقدمہ نمبر12/9درج ہوا۔رانا سلیم احمد وائرلیس آپریٹر کیخلاف اینٹی کرپشن میں فراڈ کا مقدمہ نمبر18/13درج ہوا۔محمد یاسین محرر کیخلاف تھانہ نواں کوٹ میں رشوت کا مقدمہ نمبر1091/12درج ہوا۔ذوالفقار علی محرر کیخلاف تھانہ مانگا منڈی میں مثل غائب کرنے اور رشوت کا مقدمہ درج ہوا۔قادر احمد محرر کیخلاف تھانہ گرین ٹاؤن میں فراڈ اور مالمقدمہ خورد برد کرنے کا مقدمہ نمبر314/13درج ہوا۔محمد بوٹا ہیڈ کانسٹیبل پیٹی نمبر1747/HCکیخلاف تھانہ کاہنہ میں مقدمہ نمبر464/11درج ہوا۔اس کیخلاف غبن کا الزام تھا۔نائب قاصد مولوی محمد نواز کیخلاف تھانہ ریس کورس میں مقدمہ نمبر679/11درج ہوا۔اس کیخلاف فراڈ کا الزام تھا۔کانسٹیبل محمد حسن اختر کیخلاف تھانہ فیکٹری ایریا میں رشوت لینے کا مقدمہ نمبر888/13درج ہوا۔کانسٹیبل ندیم احمد کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر37/13درج ہوا۔اس پر رشوت لینے کا الزام تھا۔کانسٹیبل محمد اکبر شاہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر86/12درج ہوا۔اس پر رشوت کا الزام تھا۔کانسٹیبل عالم شیر کیخلاف تھانہ مناواں میں مقدمہ نمبر102/11درج ہوا۔اس کیخلاف غبن کا الزام تھا۔کانسٹیبل شبر شاہ کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر65/12‘کانسٹیبل جعفر علی کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر92/10‘کانسٹیبل سرفراز کیخلاف اینٹی کرپشن میں مقدمہ نمبر96/10‘کانسٹیبل محمد رمضان کیخلاف تھانہ ہیئر ۔ زرائع نے دعوی کیا ہے کہ لاہور پولیس کے 4ہزار سے زائداہلکاروں کے خلاف کریمنل کیسز درج کئے گئے ۔جنہیں افسران بالا نے اپیل کرنے پر بحال کر دیا ۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پنجاب پولیس کے 10ہزار سے زائد پولیس افسران و اہلکار قتل ،اغوا ،ڈکیتی ،تاوان اور چوری سمیت دیگر سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ہیں جن میں سے 2295افسران و اہلکاروں کے خلاف انکوائری کے بعد مقدمات درج کئے گئے ۔جن میں سے 2262مقدمات کے چالان کئے گئے 1599افسران و اہلکاروں کو بے گناہ قرار دے دیا گیا 1200مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع ہوئے 778مقدمات کو منسوخ کیا گیا۔267مقدمات زیر تفتیش ہیں ۔4اہلکاروں کو سزائیں ہوئیں جبکہ 26کو مقدمات سے بری کیا گیا۔13کو نوکریوں سے وقتی طور پر معطل بھی کیا گیا ۔جبکہ 5کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔25افسران و اہلکاروں کو معمولی نوعیت کی سزائیں ہوئیں ۔اور ان سب کو اپیلیں کرنے کی صورت میں بحال کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں جب متذکرہ پولیس افسروں ‘ اہلکاروں‘ ان کے ساتھیوں اور لواحقین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے متذکرہ تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ایف آئی آر محض ایک الزام ہوتا ہے۔ان میں سے بعض ایف آئی آر یا تو ختم ہو چکی ہیں یا بے بنیاد ثابت ہوئی ہیں تا ہم ذرائع نے رابطہ کرنے پر اس بات پر پھر زور دیا کہ حکومتی پالیسی پر مکمل عمل ہوگا اور فہرست میں شامل افراد کو کسی طور بھی فیلڈ ڈیوٹی نہیں دی جائے گی۔رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی آپر یشن ڈاکٹر حیدر اشر ف نے کہا کہ پنجاب حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران ایسے مقدمات کے بارے میں جو بھی پالیسی بنائیں گے اس پر مکمل طور پر عملدآمد کیا جائیگا۔ویسے بھی افسران کی کوشش ہوتی ہے کہ فیلڈ میں کرپٹ افسروں اور اہلکاروں کو تعینات نہ کیا جائے اور اس سلسلہ میں میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔آئی جی پنجاب کی پالیسی بھی یہی ہے کہ کرپٹ افسروں اور اہلکاروں کو کوئی ذمہ داری بھی نہ سونپی جائے