گوادر کو پانی دو
گوادر تین اطراف سمندر سے گھراہواجزیرہ نما شہر ہے۔یہ کوہ باتیل کے دامن میں واقع شہر مکران کا گرم ترین ساحلی علاقہ ہے۔ گوادر میں پانی کا مسلۂ کئی عرصے سے جاری ہے۔نہ صرف گوادر شہر بلکہ جیوانی،پشکان،پسنی اور اورماڑہ میں پانی کا بحران جاری ہے۔ ٹینکروں کے ذریعے پانی کی ترسیل میں کبھی ٹینکر مالکان کی جانب سے بروقت پیمنٹ نہ ملنے سے تعطل کا شکار ہوتی ہے تو بعض اوقات شہری یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں پانی کم سپلائی کیا جارہا ہے۔۔۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سالوں سال گوادر سمیت باقی علاقوں میں ٹینکروں کے ذریعے پانی کی ترسیل ممکن ہوسکے گی ؟ کیا اس کا کوئی دوسرا ممکنہ حل نکالا جاسکتا ہے؟؟ گوادر کے تمام علاقوں میں پینے کے صاف پانی کے لئے بارشوں پر انحصار کیا جاتا ہے۔مگر ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمی تغیرات کی وجہ سے گوادر سمیت مکران میں بارشوں کا سلسلہ تھم چکا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف پانی کا بحران طوالت اختیار کرچکا ہے بلکہ گوادر کے دیہی علاقے شدید خشک سالی کی زد میں آچکے اور ہر طرف ’’پانی دو پانی دو‘‘ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ گوادر میں زیر زمین پانی کے ذخائر بہت محدود ہیں اور زیادہ تر علاقوں میں زیر زمین پانی موجود نہیں ہے۔ گوادر کے وہ علاقے جہاں ماضی میں وافر مقدار میں زیر زمین پانی کے ذخائر موجود تھے اب وہاں کئی فٹ کھدائی کے باوجود پانی نہیں پایا جاتا ہے۔۔ کیونکہ علاقے میں بارشوں کے بعد پانی کے ذخائر موجود رہتے ہیں۔اس وقت چونکہ گزشتہ کئی سالوں سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں پانی کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں۔۔۔
گوادر سمیت جیوانی۔پشکان کے لئے واحد آبی ذخائر آنکاڈہ ڈیم خشک ہونے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ان علاقوں میں پانی کی سپلائی کے لئے ٹینکروں کا سہارا لینا پڑا جو کہ گوادر سے ایک سو نوے کلومیٹر دور ضلع کیچ کے میرانی ڈیم سے پانی لارہے ہیں، جس پر صوبائی حکومت کو بھاری اخراجات اٹھانے کے ساتھ شہری بھی پانی کم سپلائی ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کو مستقل طور پر ٹینکروں کے ذریعے پانی سپلائی کرنا بڑی مدت کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔۔۔سوڈڈیم سے گوادر تک پائپ لائنوں کی بچھائی بھی جاری ہیں جو کہ حکومتی حلقوں کے مطابق بہت جلد مکمل ہوگا اور تیزی کے ساتھ یہ کام جاری ہے۔۔۔جبکہ دوسری جانب یہ بھی اپنی جانب ایک الگ سوال ہے کہ سوڈڈیم میں پانی ہوگا تو پھر گوادر سمیت باقی ایریا کو سپلائی کیا جائے گا۔۔۔۔پائپ لائنوں کی بچھائی کے بعد پھر بارشوں سے انحصار کیا جائے گا۔۔۔۔ کروڑوں روپیے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے آر او پلانٹ بھی استعمال سے پہلے جواب دے چکے ہیں۔سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے یہ منصوبے بھی کرپشن کی نذر ہوگئے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ واحد حل ہوگا کہ سمندری پانی کو میٹھا کرکے شہر میں پانی کے مسائل پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔۔۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گوادر میں اتنا زیر زمین پانی موجود نہیں ہے جس کا استعمال کرکے شہر میں پانی کی ضروریات کو عارضی بنیادوں پر پورا کیا جاسکے۔۔۔طویل خشک سالی اور کافی عرصے سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے آنکاڈہ ڈیم خشک ہوچکا ہے اور حال ہی میں مکمل ہونے والے دیگر دو آبی ذخائر شادی کور ڈیم اور سوڈ ڈیم میں بھی پانی موجود نہیں۔۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنے سالوں سے گوادر میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کی کیوں پلاننگ نہیں کی گئی ؟ حالانکہ اس سے پہلے بھی گوادر کے شہریوں کو آبی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔۔۔کیا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرکے گوادر کے مکینوں کے مسئلے کا حل ممکن ہوگا؟؟؟
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔