لاہور لاہور نئیں اے، سموگ اے

سموگ کیا ہے؟ یہ ہوائی و فضائی گندگی ہے، جو سرد موسم میں نمایا ں ہو جاتی ہے، لاہور زندہ دلان کا شہر ہے، لاہور لاہور اے۔اسے دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔لاہور پھیلتا پھولتا شہر ہے جو پھل پھول نہیں رہا ہے۔ ثقافتی، سیاسی اور کاروباری سرگرمیوں کے باعث یہ دیگر پاکستانیوں کے لئے پُر کشش شہر ہے۔ گزری تین چار دہائیوں کے دوران شہر کراچی مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کاشکار رہا ہے۔ جہاں لسانی گروہوں کی لڑائی مارکٹائی کے باعث شہر میں اقتصادی سرگرمیاں سکڑتی چلی گئیں، بالخصوص ایم کیو ایم نے شہر کو جہنم بنا دیا تھا۔ بھتہ خوری عام ہو گئی تھی سٹریٹ کرائمز بھی بڑھتے ہی چلے گئے تھے، الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر شہر کراچی کو مافیا چیف کے طور پر چلا رہے تھے،ان کے ایک اشارے پر شہر بند ہو جاتا تھا،کاروباری سرگرمیاں صفر ہو جاتی تھیں، انہوں نے ڈون کے طور پر اپنی حیثیت منوالی تھی۔ بات شاید ایسے ہی چلتی رہتی، لیکن انہوں نے آگے بڑھتے بڑھتے سرخ لکیر کو بھی عبور کر لیا اور پاکستان کی قومی سلامتی کے محافظ اداروں پر بھی زبان درازی شروع کر دی،پھر ہم نے ان کا انجام دیکھا۔ مافیا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا، ڈون منظر سے غائب ہو گیا، کراچی اب اس طرح قتل و غارت گری کا مرکز نہیں ہے،جس طرح کچھ عرصہ پہلے تک تھا۔ جرائم، قتل و غارت گری اور سٹریٹ کرائم اب بھی ہوتے ہیں، لیکن وہ اس طرح منظم انداز میں نہیں ہورہے،جس طرح کچھ عرصہ قبل تھے۔ جرائم عمومی انداز میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں اور سول ادارے ان سے نمٹ بھی لیتے ہیں، لیکن کراچی اب ایک نئی اور زیادہ گھناؤنی مشکل کا شکار ہو چکا ہے اور وہ ہے ”کچراراج“۔ کراچی ایک عظیم الشان کچرا کنڈی کی شکل اختیار کر چکا ہے کراچی کی لوکل،صوبائی اور مرکزی سیاست و قیادت اسی کچرا سیاست کا شکار نظر آ رہی ہے۔ کراچی کسی طور بھی ”عروس البلاد“ نہیں رہا ہے، جس کے باعث کراچی کی اقتصادی و معاشی سرگرمیاں کمزور پڑ رہی ہیں۔ اب سرمایہ کاروں کے لئے کراچی پسندیدہ اور پُرکشش جگہ نہیں رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ شہر لاہور کی طرف ”ہجرت/ مہاجروں“کا زور بڑھ رہا ہے۔ لاہور جو پہلے بھی یہاں آنے والوں کے لئے پُر کشش جگہ تھی۔
کراچی کے مسائل کے باعث لاہور کی طرف رخ کرنے والوں کے لئے لاہور اور بھی زیادہ پسندیدہ جگہ بن چکا ہے۔ آبادی کے اس دباؤ کے باعث ”شہری مسائل“ بڑھنے لگے ہیں۔ صنعت و حرفت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے یہاں ہر طرح کی آلودگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ معاشی، معاشرتی اور فضائی آلودگی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باعث لاہور اب لاہور نہیں، بلکہ کچھ اور بن رہا ہے، ابھی سردی پوری طرح نہیں آئی، لیکن سموگ نے شہر لاہور کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ فضائی آلودگی نے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ گزشتہ روز شہر لاہور کے تعلیمی اداروں میں عام تعطیل کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ شام کے وقت چلنے والی اکیڈیمیاں بھی بند ہی تھیں۔ عمومی کار سرکار بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ سرکاری اداروں میں حاضری کم تھی اور جو لوگ حاضر تھے۔ وہ بھی گھبرائے ہوئے، کھانستے ہوئے بیٹھے رہے۔ ماحول سوگوار ہی نہیں، پریشانی سے آلودہ تھا۔ ہم ابھی ڈینگی کے حملوں سے ہی نمٹ نہیں سکے کہ سموگ حملہ آور ہو گئی ہے۔ سموگ پورے پنجاب کا مسئلہ ہے۔ مشرقی پنجاب بھی اس میں شامل ہے، نئی دہلی میں فضائی آلودگی کی شرح ہم سے بھی زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دہلی سرکار نے آلودگی سے نمٹنے کے لئے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے۔انڈین سپریم کورٹ بھی ایکشن میں آگئی ہے اور اس نے کئی ایسے اقدامات ہنگامی طور پر اٹھائے ہیں، جن کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی آلودگی روکنے اور پھر بتدریج کم کرنے کی سبیل پیدا ہو گی، لیکن ہمارے ہاں صورتِ حال مختلف ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران جس طرح موجودہ ابتر ملکی معاشی صورتِ حال کو سابقہ حکومتوں کی کارکردگی قرار دے کر اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھتے ہیں، بالکل اسی طرح آلودگی اور سموگ کو ”بھارتی کارستانی“ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش سمجھنے لگے ہیں، لیکن آلودگی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، شہر لاہور اس کا اولین شکار ہے۔ عالمی ادارے ہمیں الرٹ کر رہے ہیں، ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہماری ہوا اور فضا ہی نہیں ہماری زمین و پانی بھی آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم ڈیری پراڈکٹ میں عالمی مقام رکھتے ہیں دودھ کی پیداوار میں بھی ہمیں بلند مقام حاصل ہے، دُنیا کے بڑے گلیشیرز،ڈیم، آبی سلسلے بھی ہماری دسترس میں ہیں، لیکن کیا ہم میں سے کوئی لاہوری یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ صاف قدرتی پانی تک رسائی رکھتا ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شہری وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ اسے خالص دودھ دستیاب ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم لاہوری ہر طرح کی آلودگی میں گھرے ہوئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں پنجاب حکومت کی سموگ کے حوالے سے ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔سکول کے بچوں کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لئے ”جوڈیشنل ایکشن“ یعنی عدالتی کارروائی کرے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے سموگ کا مسئلہ حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور یہ خطرناک مسئلہ مستقبل قریب میں حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔گزشتہ برس اس حوالے سے ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا، اس کمیشن نے سفارشات بھی مرتب کی تھیں، لیکن ان پر عمل درآمد کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال سموگ کا مسئلہ پچھلے سال کی نسبت زیادہ قوت اور طاقت سے اُبھر کر سامنے آیا ہے، جس کے باعث تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ پانی سر سے اونچا ہونے کو ہے، شہر لاہور شہری سہولتوں کی دستیابی کے حوالے سے بتدریج کراچی بنتا چلا جا رہا ہے۔ برھتی ہوئی آلودگی بشمول ہوائی، فضائی،زمینی اور زیر زمین خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں سے امڈتا ہوا خطرناک دھواں، کوڑے کرکٹ کو جلانے سے فضا میں بڑھتی ہوئی کثافت، چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد اس کے پودوں کو جلانا، صنعتی فضلہ اور سب سے اہم عمارتوں کی تعمیر اور سڑکوں کے پھیلتے ہوئے جال کے باعث درختوں کی کٹائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ ہمیں ابھی تک پتہ نہیں ہے کہ شہر میں کاروں اور موٹر سائیکلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہماری فضا کو کس قدر آلودہ کر رہی ہے۔ ہم انڈسٹریل زونز بناتے چلے جا رہے ہیں، ہم جو ٹیکنالوجی یہاں اختیار کر رہے ہیں۔ اس کے ہوا، فضا اور زمین پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور مستقبل میں کیا ہوگا، ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے۔
پلاسٹک شاپر بیگز ہماری آلودگی کو بڑھانے میں کتنا کردار ادا کر رہے ہیں،اس بارے میں بھی ہمیں بہت زیادہ شرح صدر حاصل نہیں ہے اور ہاں سب سے اہم ہمارا سیوریج کا نظام ہے، جو آلودگی بڑھانے اور پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے۔ ہمیں تو مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے۔ اس کے تدارک کی بات تو بہت دور کی بات ہے۔
قومی سطح پر توانائی پیدا کرنے کے ذرائع کے حوالے سے بھی ہمیں بہت زیادہ شرح صدر حاصل نہیں ہے۔ ہم بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا اور اچھا ”آبی ذریعہ“ رکھتے ہیں، لیکن ہم بتدریج تھرمل کی طرف جا رہے ہیں، جس سے آلودگی بڑھتی ہے۔ دنیا کوئلے کے ذریعے بجلی / توانائی پیدا کرنے سے دور ہوتی جا رہی ہے، کئی ممالک میں اس پر مکمل طور پر پابندی بھی لگادی گئی ہے، لیکن ہم اس کا استعمال بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ شہر لاہور میں دن بدن زیر زمین پانی کی سطح بھی گرتی چلی جا رہی ہے، دستیاب فی کس پانی کی مقدار خطرناک حد تک گر چکی ہے، صاف پانی کی ایک بوتل کی قیمت کولا ڈرنک کے برابر ہو گئی ہے۔ فطری اور قدرتی ذرائع سے دستیاب پانی کی کوالٹی بہت پست ہے، اِس لئے اس کے استعمال سے بیمار ہونے کا احتمال موجود رہتا ہے۔ زراعت کے لئے دستیاب فی ایکڑ پانی بھی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہم ”نیم بنجر ملک“ کی سطح تک گر چکے ہیں۔ ہم ایک عرصے سے ہندوستان کی آبی جارحیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان کئی ڈیم تعمیر کر چکا ہے، ہمارے طرف بہتے ہوئے پانی کا رخ بھی تبدیل کر رہا ہے،مگر ہم کسی قسم کی موثر منصوبہ بندی سے عاری نظر آرہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ لاہو ربتدریج ”لاہور نہیں اے“ کے مقام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگر ہم نے جاری صورتِ حال کا تدارک کرنے کی منظم کاوشیں نہ کیں تو ”لاہور لاہور نئیں اے، سموگ اے“ بن جائے گا۔