"جو مذاق عمران خان نے شروع کیا مولانا فضل الرحمن اسے انتہا پہ پہنچائیں گے"

"جو مذاق عمران خان نے شروع کیا مولانا فضل الرحمن اسے انتہا پہ پہنچائیں گے"

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (کالم : ایثار رانا ) میرا انتہائی غیر سنجیدہ سا مشورہ ہے کہ آئین میں فوری ترامیم کی جائیں،جس کے تحت الیکشن کھیل کا انعقاد فوری طور پہ متروک کردیا جائے اور اسکی جگہ دھرنا پالیسی شروع کی جائے۔اور آئین میں یہ لکھ دیا جائے کہ جو شخص بھی اسلام آباد میں چالیس پچاس ہزار افراد اکھٹے کرلے (جن میں چند سو مسلح ہونے چائیں۔)اسے صدر وزیراعظم کے استعفے کا حق دے دیا جائے۔

بلکہ تمام ادارے بھی اسکی تقاریر کیبعد اپنی اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے پابند ہونگے۔دھرنے کی صورت میں ریاست ان سے سنجیدگی سے مذاکرات مذاکرات کھیلنے کی پابند ہوگی۔اور بہتی گنگا میں تمام وڈیروں کو اشنان کرنے کی کھلی بلکہ ڈلی چھوٹ ہوگی اس آئینی حمام میں سب بلا تکلف۔۔۔۔۔۔ آئین کی ضمنی میں لکھ دیا جائے کہ عوام نامی دو پائے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھیں گے کہ چند ہزار افراد ہر بار بیس کروڑ دوپائیوں کے ووٹ کے حق پہ ڈاکا کیسے ڈال سکتے ہیں۔سیلز میں کے انٹرویو کے دوران سنتا سنگھ نے امیدوار سے پوچھا کیا تنخواہ لوگے وہ بولا دو لاکھ۔سنتا نے گلا کھنکارا اور کہا آپکو دس کمروں کا فلیٹ ملے گا ساتھ ایک مرسڈیز کار ملے گی۔امیدوار وار بولا سردار جی مذاق تے نہ کرو۔سنتا سنگھ بولا شروع کس نے کیتا سی۔جو مذاق عمران خان نے شروع کیا مولانا فضل الرحمن اسے انتہا پہ پہنچائیں گے۔

وزیراعظم کا استعفی نہ ہوا دیوی ماں کا پرشاد ہوگیا۔کہ والو کڑیو ونڈی دی کھیر لے جائو۔میرا یقین ہے کہ مولانا جلد پرانی تنخواہ پہ واپس چلیں جائیں گے بس ایک ادھ بونس فالتو مل جائے گا۔اور جو ادھر ادھر سے ویلیں ملیں گی وہ مفت کا فائدہ۔لیکن عمران خان جو سلامتی کونسل میں خطاب فرماکے مسلم امہ کے لیڈر بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔انکے پگانے سے پھونک نکل چکی۔انکا مزاج بوڑھ تھلے آچکا اور انہیں یہ تو سمجھ آہی چکی کہ ساس جب بہو ہوتی ہے تو اتنے نخرے نہیں کرنے چاہئیں۔آنے والی بہو بھی اسکی۔لیکیں نکلواسکتی ہے۔۔

مشتری ہشیار باش ہی رہے تو بہتر تھا۔۔نفرت کے بیج بو کے محبت کی فصل کیسے کاٹ سکتے ہیں۔لطیفہ پرانا ہے سن لیں آپ ویسے بھی عادی ہیں پچھلے بہتر سال سے جمہوریت کے نام ایک ہی لطیفہ سن رہے انہی مزاحیہ کرداروں کی بھونڈی بھدی اداکاری پہ تالیاں بجا رہے ہیں۔ایک پٹی ہوئی فلم شرطیہ نئے پرنٹ کے دعووں سے دیکھ رہے ہیں۔ملاں نصیر الدین سو رہے تھے سردی شدید تھی اچانک گلی میں شور ہوا بیگم بولیں سنیں دیکھیں باہر کیا ہوا ہے ملاں کمبل لپیٹ کے باہر نکلے اچانک ایک آدمی انکا کمبل چھین کے بھاگ گیا۔

ملاں کانپتے کانپتے اندر آئے بیگم بولی کیا جھگڑا تھا ملاں بولے کچھ نہیں بس کمبل کا جھگڑا تھا۔یہ دھرنا شرنا ختم ہو ہی جائے گا۔بس جھگڑا کشمیر کا تھا۔وہ بھارت لے کے بھاگ گیا۔مولانا نے بہت شاندار فلم چلائی،گرتی معیشت بیرونی خطروں آئی ایم ایف،ایف اے ٹی ایف کی ایسی کی تیسی، ہم گلی میں انکے رولے رپے میں رہے، میڈیا حکومت سیاستدان اور ادارے عوام کو رولے رپے کی طرف متوجہ کرکے اپنا کام نکال گئے۔
آئین میں دوسرا اضافہ انسانی بنیادوں کے نام پہ کچھ اقدامات کی گنجائیش پیدا کرے جس کے تحت سابق حکمرانوں وڈیروں چودہریوں کو قانون سے بالاتر قرار دے دیا جائے۔انہیں جب مرضی انسانی ہمدردی کی شق کے تحت کسی مقدمے کسی سزا کسی تعزیر سے کسی بھی وقت نکالا جاسکے گا۔لیکن اس عظیم قانون سازی میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عوام جیسے حقیر مخلوق پہ اسکا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہئیے۔

مثلا اگر شدید سردی میں گورنر ہائوس کے سامنے ایک ہفتے سے زائد احتجاج کرتے نابینا افراد پہ ایسے شق کا اطلاق نہیں ہونا چاہئیے جو گورنر سرور کے تاج محل کے سامنے سکڑتے سمٹتے ایڑیاں رگڑتے رات گزارتے ہیں۔میرے خیال میں نابینا تو یہ معاشرہ ہے جسے اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے بصارت سے محروم یہ کلبلاتے کیڑے نظر نہیں آتے۔ٹھیک آئین کے تحت اس قوم کا فرض ہے کہ وہ بادشاہوں کے پلیٹ لٹس گرنے شہزادیوں کے چہرے پہ اداسی آنے پر ماتم کرے۔فقیر نے بنتا سنگھ کو کہا اللہ کے نام پہ کھانا کھلادو بنتا بولا کل کا کھانا کھا لوگے وہ بولا ہاں تو بنتا بولا چل فیر کل آجاویں،گورنر ہاو¿س کے سامنے احتجاج کرنے والوں سے تو کوئی کل کا بھی وعدہ نہیں کررہا۔