بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے بابری مسجد کے متنازعہ فیصلے کی دھجیاں بکھیر دیں

بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے بابری مسجد کے متنازعہ فیصلے کی دھجیاں ...
بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے بابری مسجد کے متنازعہ فیصلے کی دھجیاں بکھیر دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نئی دہلی(ڈیلی پاکستان آن لائن)بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف  جسٹس اشوک کمار گنگولی نے ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے  بابری مسجد کے انتہائی متنازعہ فیصلے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایسے نکات بیان کر دیئے ہیں کہ ہندوستانی سپریم کورٹ کے ناانصافی پر مبنی فیصلے کا پول پوری دنیا کے سامنے  کھول کے رکھ دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’’بی بی سی ہندی ‘‘کو دیئے جانے والے انٹرویو میں بابری مسجد فیصلےکو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جسٹس گنگولی کا کہنا تھا کہجس طرح کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا ہے،اس سے ان کے ذہن میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں،فیصلے اس طرح ہوں گے تو ملک میں بے شمار ایسے مذہبی مقامات ہیں جنہیں توڑنا پڑے گا،اس فیصلے کے بعد ایک مسلمان کیا سوچے گا؟ وہاں برسوں سے ایک مسجد تھی جسے منہدم کر دیا گیا،اب سپریم کورٹ نے وہاں ایک مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے،یہ اجازت اس بنیاد پر دی گئی کہ یہ زمین رام لالہ کے ساتھ منسلک ہے،صدیوں پہلے زمین پر کس کا مالکانہ حق تھا؟اس کا فیصلہ کیا سپریم کورٹ کرے گی؟ کیا سپریم کورٹ یہ بھول جائے گی کہ جب آئین وجود میں آیا تو وہاں پر مسجد موجود تھی؟ آئین میں دفعات موجود ہیں اور اس کی حفاظت کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔
بھارتیسپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گنگولی نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا ؟ ہندوستان میں اُس وقت جمہوریت نہیں تھی،اُس وقت وہاں ایک مسجد تھی،ایک مندر تھا، بدھ استوپ تھا،ایک چرچ تھا،اگر ہم اس پر فیصلہ کرنے بیٹھیں گے ہیں تو بہت سے مندروں ، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا، ہم ’افسانوی حقائق‘ کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔جسٹس گنگولی نے کہا کہ اقلیتوں نے نسلوں سے دیکھا ہے کہ وہاں ایک مسجد تھی، مسجد کو توڑ دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب  وہاں ایک مندر تعمیر ہوگا، اس فیصلے نے میرے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں، آئین کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس فیصلہ کو قبول کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے۔جسٹس گنگولی نے کہا کہ سنہ 1856-57 میں شاید نماز پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہو لیکن 1949 کے بعد سے یہاں نماز پڑھی گئی ہے اور اس کا ثبوت موجود ہے،جب ہمارا آئین معرض وجود آیا تو یہاں پر نماز پڑھی جا رہی تھی،ایک ایسی جگہ جہاں نماز پڑھی گئی،بھارتی  آئین کے مطابق لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں تو پھر اقلیتوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی آزادی کا دفاع کریں۔