آرمی کا اصل روپ آپ کے سامنے ہے!
پچھلے ہفتے (5نومبر) کسی دوست کی طرف سے ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا جس کا دورانیہ دو منٹ کا تھا لیکن اس نے مجھے دو دن تک بے چین رکھا۔
یہ کلپ جب کھلتا ہے تو ایک ڈبل کیبن آرمی ڈاج نظر آتی ہے جس کے اردگرد تقریباً 40،50 افراد گھیرے ڈالے کھڑے ہیں۔ اس میں ایک فوجی بیٹھا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس کے چہرے مہرے سے کسی پریشانی کے آثار ہویدا نہیں۔پچھلی سیٹ پر ایک باریش نوجوان بھی بیٹھا ہے جس نے سویلین کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ ایک دیہاتی گاڑی کی وڈیو بنا رہا ہے اور ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کئے جا رہا ہے۔ وہ گاڑی کے بمپر پر لگے کاغذوں کی ٹیپ اکھاڑتا ہے اور کہتا ہے: ”دیکھئے ان لوگوں نے گاڑی کے نمبر چھپانے کے لئے اس پر ٹیپ سے کاغذ چپکائے ہوئے ہیں“۔
وہ اتنا کہہ کر کاغذ اتارتا ہے تو گاڑی کا وہ نمبر نظر آتا ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ گاڑی کس فارمیشن اور کس یونٹ کی ہے۔ فارمیشن پر ایکس (X) کا نشان ہے جس کا مطلب ہے کہ گاڑی پاک فوج کے 10ڈویژن کی ہے جس کا ہیڈکوارٹر لاہور میں ہے۔ لاہور میں دو ڈویژن ہیڈکوارٹر اور ایک کور ہیڈکوارٹر ہے۔ ایک 10ڈویژن ہے جس کی تاریخ پاکستان جتنی پرانی ہے۔ دوسرا 11ڈویژن ہے جو بعد میں لاہور میں قائم کیا گیا۔4کور کو ’لاہور کور‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مجھے ان تینوں فارمیشنوں میں جانے کا متعدد بار اتفاق ہوا، دورانِِ سروس بھی اور بعد از ریٹائرمنٹ بھی۔
گاڑی پر ایکس کے فارمیشن سائن کے ساتھ 668کا نمبر واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ موبائل کا کیمرہ سامنے والے بمپر سے گھومتا ہوا گاڑی کی پشت کے بمپر کی طرف جاتا ہے جس پر 04CJ1987 کی عبارت صاف پڑھی جا سکتی ہے۔ کمنٹری کرنے والے کی آواز ابھرتی ہے: ”حضرات! دیکھ لیں یہ فوجی گاڑی ہے۔ اس کا رنگ اور نمبروغیرہ میں آپ کو دکھا رہا ہوں۔ یہ فوجی عام طور پر یہاں آتے ہیں اور ہم سے ایک لاکھ روپے لے جاتے ہیں۔ یہ دیہاڑیاں لگاتے ہیں۔ آج انہوں نے پھر یہاں آکر پیسے مانگے ہیں اور جب ہم نے انکار کیا ہے تو فائر کھول دیا ہے۔ انہوں نے تین فائر مارے ہیں جن میں ہمارا ایک بھائی زخمی ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں ہے۔ ہم نے بارہا میڈیا والوں کو درخواست کی ہے کہ وہ یہاں آئیں اور یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں“۔
کمنٹری کرنے والے اس شخص کا چہرہ وڈیو میں نظر نہیں آتا کیونکہ وہ خود کمنٹری کر رہا ہے۔ لیکن موبائل کیمرہ اب ایک اور ادھیڑ عمر کے دیہاتی کو دکھاتا ہے جس کا سراپا صاف نظر آ رہا ہے اور وہ کہہ رہا ہے: ”بھائیو! آپ دیکھ لو۔ اس گاڑی کے اندر ایک وردی پوش ڈرائیور بیٹھا ہے۔ وہ بے پروا ہے۔ اسے کچھ خوف نہیں کہ کتنی خلقت یہاں جمع ہے اور اس کی جان خطرے میں ہے۔ چونکہ میڈیا والے یہاں نہیں آتے اسی لئے ہم اپنے سوشل میڈیا کے بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس وڈیو کو آپ سے شیئر کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ ہماری یہ آرمی لوگوں سے کیا سلوک کرتی ہے……“
یہ کمنٹری وڈیو کے ساتھ ساتھ دو منٹ تک جاری رہتی ہے اور فوج کے خلاف اس طرح کی ہرزہ سرائی بھی جاری رہتی ہے۔ یہ شخص آخری فقرہ بڑے ملتجیانہ اور زور دار انداز میں ادا کرتا ہے اور کہتا ہے: ”آرمی کا اصل روپ آپ کے سامنے ہے“۔
جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا لیکن شک کی بھی تو کوئی گنجائش نہیں …… گاڑی بالکل فوجی ہے…… اس کے بمپر پر آگے پیچھے لکھے نمبر بھی بالکل اصلی ہیں۔ اندر بیٹھا ہوا فوجی بھی بالکل اصل وردی میں ہے اور اس کے کاندھے پر فارمیشن سائن بھی صاف نظر آ رہا ہے…… چنانچہ میں اس وڈیو کو فوراً ہی اپنے فوجی دوستوں کے ساتھ واٹس آپ پر شیئر کرتا ہوں۔ پانچ منٹ کے بعد ایک سینئر آفیسر سے یہ پیغام موصول ہوتا ہے:
Fabricated story.
Vigilance teams caught illegal excavtion in large numbers and during the process one trolly attempting fleeing where our soldiers fired. Erroneously a burst towards the trolly hit the civilian in the process.
The injured is stable.
اس Messageکا اردو ترجمہ یہ ہے: ”یہ ایک جعلی سٹوری گھڑی گئی ہے۔ نگرانی کرنے والی ٹیموں نے غیر قانونی طور پر کھدائی کرنے والی ایک بڑی تعداد کی ٹرالیوں کو فرار ہوتے ہوئے روکا۔ غلطی سے فائر کا ایک برسٹ جو ٹرالی پر مارا گیا تھا، اس کی ایک گولی ایک سویلین کو لگی جو زخمی ہو گیا۔ اس کی حالت خطرے سے باہر ہے“……
یہ غیر قانونی (اور قانونی) کھدائی والی بات میری سمجھ میں نہ آئی۔ میں چونکہ اس سارے پس منظر سے آگاہ نہ تھا، اس لئے دوچار اور سوال بھی کئے جن کا جواب انتہائی مختصر دیا گیا۔ یہ اختصار میرے اس شک کی (شاید) تائید بھی تھا کہ اس وائرل ویڈیو میں جو کچھ دکھایا اور سنوایا گیا ہے،وہ سچ ہو گا یا آدھا سچ ہوگا۔ لیکن پھر بھی یہ یقین نہ آیا کہ اس طرح دن کی روشنی میں فوجی گاڑی میں سوار اور فوجی وردی زیبِ تن کئے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فوجی لوگ ان لوگوں سے ’بھتہ‘ مانگیں اور لاکھوں کا تقاضا کریں اور نہ ملنے پر فائر کھول کر گاؤں والوں کو مار دیں یا زخمی کر دیں ……خیال آیا کہ کراچی میں بھتہ خوری کی لعنت جو چند برس پہلے عروج پر تھی (آور آج بھی ایک کم سکیل پر جاری ہے) کیا وہ لاہور کے ان سرحدی علاقوں میں بھی آ گئی ہے اور بھتہ خور کوئی ڈاکو اور سویلین نہیں بلکہ وردی پوش فوجی ہیں جو کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور نہتے لوگوں کی جانیں بچانے کی بجائے ان کی جانیں لے رہے ہیں۔
دو تین دن تک یہ ویڈیو ایک آسیب کی طرح مجھے ہانٹ (Haunt)کرتی رہی…… وہ میرے پیچھے پیچھے تھی اور میں اس کے آگے آگے…… آخر کار کل یہ معمہ حل ہوا۔ اس تفصیل کا اجمال یہ ہے……
حکومت نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ ملحق زمین کے 10کلومیٹر کے اندر شجر کاری کر رکھی ہے۔بعض درخت خود رو بھی ہیں اور قیامِ پاکستان سے پہلے کے ہیں۔ یہ ذخیرے (جنگل) سیکیورٹی کے پیش نظر اور سرحد کے پار نظر رکھنے کے لئے پہلی دفاعی صف کا کام دیتے ہیں۔ بعض مقامات پر ان میں دریاؤں سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی کھالوں اور نالیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ انڈیا نے چونکہ راوی اور ستلج کا پانی روک رکھا ہے اس لئے دریا کے پرانے بستر (Beds)سوکھ گئے ہیں لیکن پھر بھی کئی مقامات پر برساتی نالے بن گئے ہیں۔ جو دریائی بستر (Beds) خشک ہو گئے ہیں، ان کی ریت، ”ریت چوروں“کا من پسند ٹارگٹ ہیں۔ یہ لوگ ٹرالیاں لے کر آتے ہیں، ریت کی کھدائی کرکے اسے ٹرالیوں میں بھرتے ہیں اور شہر میں لے جا کر بیچ دیتے ہیں۔ آج کل چونکہ تعمیراتی کا کام زوروں پر ہے اس لئے ریت اور بجری وغیرہ کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جو ٹرالی چند برس پہلے 2ہزار کی آتی تھی، اب 10ہزار سے بھی اوپر جا چکی ہے۔
دس کلومیٹر کی اس سرحدی پٹی کے ساتھ لوگوں کی زمینیں بھی ہیں۔ وہ خود بھی ’ریت چور‘ ہیں اور اپنے دوسرے پیٹی بھائیوں کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ حکومت اس ریت چوری کی روک تھام نہیں کر سکتی۔ اور جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو سرحد کے ساتھ ہماری جو فارمیشنیں لگی ہوئی ہیں، ان کو یہ ٹاسک بھی دیا جاتا ہے کہ وہ گاہے بگاہے، انٹیلی جنس کی بنیاد پر چھاپے مار کر ان ریت چور ٹرالیوں کو پکڑیں اور چوروں کو قرار واقعی سزا دیں …… یہی وجہ ہے کہ ان ریت چوروں اور ان کا پیجھا کرنے والی فوجی گاڑیوں کے درمیان بلی چوہے کی دوڑ جاری رہتی ہے۔ اور یہ گاڑی جس کی وڈیو وائرل کی گئی ہے، انہی گاڑیوں میں سے ایک ہے جو لاہور کے سرحدی علاقے میں ریت کی کھدائی اور ٹرالیوں میں بھرائی کی روک تھام کاپیشہ ورانہ فریضہ ادا کر رہی تھی جس کو روکا گیا اور نہ رکنے پر اس کے ٹائروں پر فائر کیا گیا جو پھسل (ریکوشٹ) ہو کر ایک شخص کو بھی لگا جو ہسپتال میں ہے لیکن زیادہ زخمی نہیں کیونکہ فوجیوں نے براہِ راست اس پر فائر نہیں کیا تھا۔پھسل کر گولیوں کے دور و نزدیک جانے کی داستانیں تو ہر قاری کے علم میں ہیں۔
انڈو پاک سرحد کے ساتھ ساتھ اس 10کلومیٹر رقبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان جنگلوں میں فوج نے مچانیں (OPs) بنا کر سرحد پار علاقے کی بصری ریکی کا ایک مربوط نظام قائم کر رکھا ہے۔ ان جنگلوں میں جگہ جگہ آپ کو فیلڈ ٹیلی فونوں کی تاریں بھی درختوں کے ساتھ بندھی نظر آئیں گی…… ’ریت چوروں‘ کے علاوہ ان جنگلوں میں ’شیشم چور‘ اور ’کیکر چور‘ بھی بہت سے ہیں۔ آپ کسی فرنیچر کی دکان پر جائیں اور شیشم کی لکڑی کی بنی کسی آئٹم کا بھاؤ پوچھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان سرحدی جنگلوں میں اُگے شیشم کے درختوں کی قیمت کیا ہے!
ایک اور پہلو بھی اس ’ریت چوری‘ کا یہ ہے کہ جہاں سے ریت نکالی جاتی ہے، وہاں بارشی پانی سے گڑھے بن جاتے ہیں۔ فوج کی ریکی کرنے والی گاڑیاں بسا اوقات ان گڑھوں میں گرتی ہیں اور جان لیوا حادثات کا سبب بنتی ہیں …… لاہور کی اس پاک بھارت سرحد پر جو لوگ آباد ہیں، وہ ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے بہی خواہ ہیں اور اس لئے فوج کے خلاف ہیں۔ جب ان کی قیادت فوج کو برسرِ عام سبّ و شتم کا نشانہ بناتی ہے تو یہ لوگ بھی اپنے ’آقاؤں‘ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسے ڈرامہ رچاتے اور اس قسم کی وڈیوز وائرل کرتے ہیں اور ان پر کمنٹری کرنے کے آخر میں یہ جملہ بطور خاص دہراتے ہیں: ”آرمی کا اصل روپ آپ کے سامنے ہے!“