روشن صحافت کا باب 

روشن صحافت کا باب 
روشن صحافت کا باب 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بعض لوگوں کا وجود نعمت غیر مترقبہ کا حامل ہوتا ہے وہ لوگ ہمیں میسر بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کی غیر معمولی صلاحیتوں سے ہم خاطر خواہ استفادہ نہیں کرپاتے یایوں کہئے وقت کے دریاؤں کی طغیانیاں ان شخصیات تک پہنچنے نہیں دیتیں مصروفیات کے بھنور ہمیں غافل رکھتے ہیں اور ہم کسی کی لازوال خوبیوں سے بے نیاز شب وروز کے انہماک میں ڈوبے رہتے ہیں یہ تک سوچنے کا وقت نہیں ملتا کہ شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور ایک شخص کے شخصیت بننے تک اک عمر درکار ہوتی اور کسی کی عمر بھر کی ریاضتوں۔ تجربات اور مشاہدات سے ہم بہت سیکھ سکتے ہیں، لیکن ہم اپنی کاہلی اور غفلت سے ایسی شخصیات سے خاطر خواہ علمی فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں ایسی ہی ایک شخصیت جناب قدرت اللہ چودھری تھے۔

چودھری قدرت اللہ صاحب سے پرانی شناسائی تھی ان کے بے لاگ تبصرے تجزئیے جاندار اور شاندار کالم پڑھے جاتے تھے، جنہیں چاہا اور سراہا جاتا انہوں نے آدھی صدی تک صحافت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ان کے صحافتی قد کا تو مجھے علم تھا، لیکن ان کی ادبی دسترس معلوم نہ تھی اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب کوئی سال قبل روزنامہ ”پاکستان“ کو ایک قطعہ بھیجا اور دوسرے روز وہ شائع نہ ہوا،حالانکہ جناب مجیب الرحمن شامی سے گذراش کے بعد کچھ قطعات بھیجنے شروع کئے اور دوسرے ہی روز شائع بھی کر دئیے جاتے، لیکن مذکورہ شاعری کی عدم اشاعت پر میں نے جناب مجیب الرحمن شامی سے عرض کی تو شامی صاحب سے گذارش کے فوری بعد ہی مجھے چودھری قدر ت اللہ صاحب کی فون کال آگئی اور وہ شاعری کے اوزان پر بات کرنے لگے کہ کیا اس مصرع میں حذف نہیں آ رہا؟میں نے وہ مصرع پڑھا اوراسکی تقطیع کی اور کہا کہ اس مصرع کو ایسے پڑھا جائے گا تو وزن برقرار رہے گا تو پھر جاکر کہیں وہ مطمئن ہوئے اور اس کے دوسرے ہی روز وہ اشعار شائع کر دیئے گئے، یعنی پاکستان اخبار میں نثر ہے کہ شاعری اس کی اشاعت سے پہلے اسے باقاعدہ پرکھا اور جانچا جاتا ہے اور یہ بات کسی ادارے کے معیار کا تعین کرتی وگرنہ سوشل میڈیا کی ہنگامہ آرائیوں اور نت نئے دھڑا دھڑ نکلنے والے اخبارات نے تو کسی چیز کے معیار کی کسوٹی کو ہی ختم کردیا ہے،

جس پر اسے پرکھا جا سکے، کیونکہ ادارے ایسے ہی نہیں بنتے ادارے شخصیات سے بنتے ہیں اینٹ پتھرسے نہیں جیسے نوائے وقت میں حمید نظامی اور جناب مجید نظامی تھے مجید نظامی میرے مشفق تھے وہ لکھنے والوں کی بڑی قدر کرتے جیسے خدا سلامت رکھے جناب مجیب الرحمن شامی ہیں۔ شامی صاحب میرے محسن ہیں جیسے علامہ اقبال ؒ۔ پطرس بخاری۔فیض احمد فیض۔ صوفی تبسم تھے جو گورنمنٹ کالج کی پہچان بنے وگرنہ گو رنمنٹ کالج کی گرجا نما عمارت صرف عمارت ہی رہتی قدرت اللہ چودھری اپنے پیشہ سے بڑے مخلص تھے متعدد کتابوں کے مصنف شاعر ادیب کالم نگارپروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین بتاتے ہیں۔ چودھری صاحب کو دیکھ کر ان کے اندر مدو جزر پیدا ہوتے ایک تحریک پیدا ہوتی تھی، چودھری صاحب جناب مجیب الرحمن شامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صاف ستھری صحافت کو فروغ دیتے رہے وہ صاف ستھری صحافت کے داعی تھے رات گئے تک روزنامہ ”پاکستان“ کے دفتر ملک و قوم کے لئے جاگتے تھے کہ ایک سچا صحافی صحافت کو پیشہ ہی نہیں مشن سمجھتا ہے وہ بڑے مہمان نواز تھے۔ چودھری صاحب سے ٹیلیفونک گفتگو تو اکثر رہتی یہ کوئی شائد ایک ماہ پہلے کی بات ہوگی کسی ایک کالم میں علامہ اقبالؒ کا ذکر تھا کہ اقبالؒ کی تعلیمات ایسی تھیں،یعنی پورا کالم علامہ اقبال ؒ پر نہ تھا اور وہ کالم مقررہ وقت پر شائع نہ ہوسکا شائد اس روز چھٹی تھی یا کیا تھا۔ دوسرے ہفتہ میں نے کوئی اور کالم بھیج دیا کہ حالات بدلتے ہیں تو موضوعات بھی بدلتے ہیں اور کالم بھیج کر میں نے چودھری صاحب سے گزارش کی کہ اب پہلا کالم رہنے دیا جائے اور براہ کرم نئے کالم کو شامل کر لیا جائے توکہنے لگے وہ علامہ اقبالؒ والا کالم؟ میں نے کہا جی وہ پرانا ہوگیا تو کہنے لگا کیا علامہ اقبال ؒپرانا ہو گیا ہے؟میں نے وضاحت کی کہ نہیں نہیں عالی جاہ اللہ معاف کرے،

علامہ اقبالؒ کبھی پرانا نہیں ہو سکتا موضوع پرانا ہو گیا ہے، حالانکہ ایک بار میں مقررہ وقت پر کالم نہ بھیج سکا تو چودھری صاحب کال آگئی کہ آپکا کالم نہیں آیا ابھی تک فوری بھیجئے ایسے نفیس تھے آپ۔ مختلف قومی اخبارات اور چینلز میں خدمات انجام دینے والے چودھری صاحب کے شاگردوں کاایک بڑا حلقہ ہے چودھری صاحب بڑے درویش صفت صحافی تھے، جو نصف صدی تک صحافت سے منسلک اور مختلف میڈیا ہاؤسز میں اہم مناصب پر بھی فائز رہے روزنامہ ”پاکستان“ کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے۔لاہور پریس کلب، پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور جنگ ورکر یونین جیسی صحافتی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے کارکن صحافیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد بھی کرتے رہے انگریزی اخبارات کے مضامین اور خبروں کے ترجمے پر انہیں ملکہ حاصل تھا  وہ 1948ء میں پیدا ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔ اولڈ راوین کے طور پر بھی ان کی خدمات کو قابل تحسین رہیں۔انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ صحافت کا آغاز روزنامہ ”نوائے وقت“ لاہور سے کیا۔روزنامہ ”جنگ“ لاہور کی اشاعت سے قبل ہی وہ اس ادارے میں شامل ہو گئے۔ روزنامہ ”دن“ میں بطور ایڈیٹر وابستہ ہوئے، اور پھر روزنامہ ”پاکستان“ سے منسلک ہوگئے، لاہور اور اسلام آباد سمیت دیگر سٹیشنوں پر بطور گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر خدمات انجام دیں،اور ملک عدم رخصت ہونے تک وہ روزنامہ ”پاکستان“ سے منسلک رہے۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ’آمین‘ چودھری صاحب روشن صحافت کا باب تھے ان کا خلاء کبھی پورا نہ ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -