موسم سرما بجلی سہولت پیکیج 

Nov 10, 2024

وفاقی حکومت نے موسم سرما کے لئے بجلی سہولت پیکیج کا اعلان کردیا ہے، جس کے تحت سردیوں کے تین ماہ کے دوران بجلی کے اضافی استعمال پر لگ بھگ 26 روپے فی یونٹ تک کا ریلیف دیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی سہولت پیکیج دسمبر 2024ء سے فروری 2025ء تک نافذ رہے گا، گھریلو کے علاوہ کمرشل اور صنعتی صارفین بھی اِس سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔ اِس سہولت پیکیج کا اطلاق گزشتہ تین سالوں کے مقابلے میں اضافی بجلی کے استعمال پر ہو گا، مالی سال 2022ء کے مقابلے میں 20 فیصد، مالی سال 2023ء کے مقابلے میں 30 فیصد مالی سال 2024ء کے مقابلے میں 50 فیصد اضافی استعمال پر مذکورہ ریلیف دیا جائے گا۔ گھریلو صارفین کو اضافی استعمال پر کم سے کم 30 فیصد یا 11 روپے 42 پیسے فی یونٹ اور زیادہ سے زیادہ اضافی استعمال پر 50فیصد یا 26 روپے فی یونٹ، کمرشل صارفین کو اضافی استعمال پر کم سے کم 34 فیصد یا 13 روپے 46 پیسے فی یونٹ اور زیادہ سے زیادہ اضافی استعمال پر47 فیصد یا 22 روپے 71 پیسے فی یونٹ جبکہ صنعتی صارفین کو اضافی استعمال پر کم سے کم 18 فیصد یا پانچ روپے 72 پیسے فی یونٹ اور زیادہ سے زیادہ 37 فیصد یا 15روپے پانچ پیسے فی یونٹ کی بچت ہو گی۔وزیراعظم شہباز شریف کا اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ عوام کو ایک اچھی خبر دے رہے ہیں جس سے معیشت ترقی کرے گی جبکہ زراعت اور صنعت تیزی سے آگے بڑھیں گی۔ اُنہوں نے کہا کہ بجلی سہولت پیکیج کے ذریعے بجلی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی کاوشوں سے معیشت استحکام کی راہ پر گامزن ہے،پالیسی ریٹ کے ساتھ مہنگائی میں بھی کمی ہوئی ہے، مزید کم ہونے سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی،امداد کی بجائے تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال ستمبر میں گزشتہ سال کے اِسی ماہ کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار 6.4 فیصد کمی کے ساتھ 12,487 گیگاواٹ رہی، کمی کی بنیادی وجہ عوام کی بڑی تعداد میں سولر پر منتقلی کے علاوہ صنعتوں کی جانب سے بجلی کی طلب میں کمی بھی ہے۔ نیوکلیئر پاور پلانٹ سے کم لاگت والی بجلی کی پیداوار میں سالانہ بنیاد پر30 فیصد کی نمایاں کمی آئی اور یہ 1,596 گیگاواٹ رہی جبکہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار 78 فیصد اضافے کے ساتھ 1,148 گیگاواٹ رہی جس سے انرجی مکس کی کمپوزیشن پر اثرات مرتب ہوئے، اِس کے نتیجے میں انڈیپنڈنٹ پرائیویٹ پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی کیپیسیٹی پیمنٹس میں اضافہ ہو گا جس کا نتیجہ عوام کو مزید مہنگی بجلی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا جو فیول کاسٹ کی مد میں گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں قریباً 12.40 فیصد یعنی 8.34 روپے فی یونٹ ہے۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ستمبر میں سب سے زیادہ 4,838 گیگاواٹ بجلی ہائیڈل پاور پلانٹس سے حاصل کی گئی جو کہ انرجی مکس کا 39 فیصد بنتی ہے جبکہ 16 فیصد (2,039 گیگاواٹ) بجلی ایل این جی پلانٹس سے اور 13 فیصد بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹ سے حاصل کی گئی۔ سولر پینلز سے بجلی کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہواہے کیونکہ مہنگی بجلی اور بھاری بھر کم بلوں سے تنگ آئے ہزاروں گھروں، کمرشل یونٹس اور صنعتوں نے سولر پینل لگوا لئے ہیں  اور اِس سے بجلی کی کھپت میں بھی لگ بھگ 17 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق تقریباً آٹھ ہزار میگا واٹ کے سولر پینلز فروخت کیے جا چکے ہیں جن سے لگ بھگ تین ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ بجلی قومی گرڈ کو جا رہی ہے، جس سے عوام کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا تاہم روایتی ذرائع سے بجلی کے حصول میں کمی آنے سے آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس بڑھ گئی ہیں، جتنی بجلی سولر سے قومی گرڈ کو دی گئی لگ بھگ اتنی ہی کمی کھپت میں بھی آئی ہے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے محاصل میں کمی آنے کی وجہ سے وہ اپنے ٹارگٹس پورے کرنے میں ناکام ہیں۔وزیر توانائی اویس لغاری اِسی وجہ سے چند روز قبل کہتے نظر آئے کہ آئندہ 10 سال تک بجلی کی قیمتیں بڑھتے رہنے کا خدشہ ہے، ملک میں سولر نیٹ میٹرنگ کی رفتار کم کرنے کے لئے ریگولیشن اور پرائسنگ میکنزم میں تبدیلی ضروری ہے۔ عوام کی مشکلات کے پیش ِ نظر صوبائی حکومتیں سولر کو فروغ دے رہی ہیں، شمسی بجلی کی پیداوار میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا،اِس لئے حکومت کو مزید آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے اور بعض کے منافع میں کمی کرنی ہو گی۔ آئی پی پیز سے متعلق غلط فیصلے حکمرانوں نے ہی کئے اور اُنہیں ہی اِس کا حل تلاش کرنا ہے۔ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں، صارفین نے اپنی جیب سے سولر لگوایا، اُس پر پرائسنگ میکنزم کے نام پر دوبارہ  بوجھ ڈالنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔حکومت کو عوام دوست حل تلاش کرنا چاہئیں،انہیں کسی بھی چکی میں پیسنے سے گریز کرنا چاہئے۔ حکومت کو کوئلے سمیت دیگر ماحول دشمن روایتی طریقوں سے بجلی کی پیدوار کا خاتمہ بھی کرنا چاہئے ورنہ یہ بڑھتی ہوئے ماحولیاتی آلودگی بالکل ہی قابو سے باہر ہو جائے گی۔گزشتہ دِنوں تھر کول کے کوئلے سے بجلی بنانے کے بجائے اُس سے گیس پیدا کر کے بجلی بنانے کی خبر سامنے آئی تھی، چند ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے ایسا ممکن ہو سکتا ہے، حکومت کو اُس طرف توجہ دینی چاہئے، اِس سے بجلی سستی پیدا ہو گی اورماحول دوست بھی ہو گی۔

 دنیا میں ترقی وہی قومیں کرتی ہیں جو مستقبل کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتی ہیں، دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، ٹیکنالوجی روایتی طریقوں کی جگہ لے رہی ہے،یہاں بھی صرف نعرے لگانے کی بجائے صحیح معنوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال عام کرنا چاہئے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر حکومت صنعتی پیداوار بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو  صنعتوں کے مسائل حل کرے اور بیرونی ممالک سے اشیا کی درآمد کو کم سے کم کر کے مقامی طور پر تیار کی جانے والی اشیاء کو فروغ دے تاکہ ملک میں نہ صرف صنعتوں کا پہیہ چلے بلکہ درآمدات پر خرچ کیا جانے والا قیمتی زرِ مبادلہ بھی بچایا جا سکے۔ حکومت نے یہ جو ونٹر پیکیج جاری کیا ہے، یہ ایک اچھا اقدام ہے اسے دیرپا بنانے کی ضرورت ہے۔حکام کو آگے بڑھنے کے لئے وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جس میں عوام کی بھلائی ہو، ان کو کسی بھی مشکل میں مبتلا کر کے بہتری کی اُمید لگانا مناسب نہیں ہے۔اِس وقت حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے، انہیں روشن مستقبل کا یقین دلانا ہے اور وہ تب ہی ہو سکتا ہے جب خلوصِ نیت سے اس کے لئے کوشش کی جائے۔

مزیدخبریں