ٹرمپ کی جیت کے بعد پاکستان میں سیاسی جذبات کا پارہ دوبارہ سے چڑھ گیا ہے، جودوبارہ سے اتر جائے گا کیونکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، کافی کچھ بدل چکا ہے، باقی بدل جائے گا۔ سیاست بے رحم چیز ہوتی ہے، اس میں اپنے مفاد کی نگہبانی انسان کواندھا کردیتی ہے، اسے ہر طرف اپنا آپ ہی نظر آتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں لوگ غلطیاں کرتے ہیں جو بعض اوقات بہت مہنگی پڑتی ہیں۔ مثال کے طورپرجب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انہوں نے رجیم چینج کا واویلا شروع کردیا جو بعد میں ہم کوئی غلام ہیں کی رٹ میں بدل گیا۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان نے امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا جس کی انہیں سزا دی گئی وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے حامیوں نے مقامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔لیکن آج کھلا کہ پی ٹی آئی نے جس امریکہ کو نشانے پر رکھا تھا وہ بائیڈن کا امریکہ تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگرڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے لئے کچھ نہ کیا توپی ٹی آئی والے ایک اور غلطی کے سوا کیا کریں گے؟
سیاسی ناپختگی کے باعث پی ٹی آئی کے حلقے یہ بات نہیں سمجھ پا رہے کہ ٹرمپ کی جیت پر جس خوشی کااظہار انہوں نے کیا ہے اس پر نون لیگ کو موقع مل گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی جانب سے ہم کوئی غلام ہیں کے دعوے کا مذاق اڑائیں۔ اب پی ٹی آئی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے غلام ہیں یا نہیں!....یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک وقت تھا جب پی ٹی آئی والے جنرل فیض حمید کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگا لگا کر پوسٹیں کیا کرتے تھے۔ پھرجب جنرل فیض حمیدگرفتار ہو گئے اوران کے سمیت عمران خان کے فوجی ٹرائل کی باتیں ہونے لگیں توپی ٹی آئی توپی ٹی آئی خود عمران خان نے بھی جنرل فیض سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔ اب عالم یہ ہے کہ وہ تو جنرل فیض سے پیچھا چھڑوانا چاہتے ہیں، جنرل فیض کے کارنامے ان کا پیچھانہیں چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پی ٹی آئی کو امریکہ کے حوالے سے درپیش ہے کہ بقول میر تقی میر
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
پی ٹی آئی کے حلقے سمجھتے ہیں کہ ان کی ایسی باتوں کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے، کوئی ان کی دو رخی کا نوٹس نہیں لے رہا ہے، وہ بھول گئے ہیں کہ پبلک سب جانتی ہے۔ اگر انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے تو کم از کم آصف علی زرداری کی دو عملیوں سے ہی سبق سیکھ لیں جنھوں نے بے نظیر کی شہادت کے بعد ایک وصیت نکال لی اورپوری پارٹی پرقبضہ کر لیا۔ بات یہیں تک رہتی توٹھیک تھی مگر پھر وہ بلاول بھٹو کے راستے کی دیوار بن گئے۔پنجاب میں نون لیگ کو دیوار سے لگانے کے شوق میں بلاول کو آؤٹ اورعمران خان کو ان کردیا۔تب ان کے حواری ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بڑے شوق سے لگایا کرتے تھے اور جن دنوں ان کی سیاسی غلطیاں عروج پر تھیں، ان دنوں توشیروں کاشکاری، زرداری کا غلغلہ بھی بلندکیا جاتاتھا۔ مگر پھر چشم فلک نے دیکھاکہ جو گڑھا پیپلزپارٹی نے نون لیگ کے لئے کھودا تھا، خود اس میں جا گری اور آج بلاول بھٹو عوام کو انصاف کے نام پر 26ویں آئینی ترمیم پاس کرواکر وہ مقبولیت حاصل نہیں کر پائے، جو ٹرمپ کی جیت کے بعد عمران خان کے حصے میں آئی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی کے ووٹروں سپورٹروں میں زیادہ تعداد پیپلز پارٹی کے منحرفین کی ہے۔ وہ آصف زرداری کی سیاست سے ناراض ہو کر پی ٹی آئی میں آئے تھے مگر یہاں بھی عمران خان کی جنرل فیض سے بے پناہ محبت ان کامنہ چڑا رہی ہے کیونکہ روائتی طور پر پیپلز پارٹی کا ورکر، ووٹر اور سپورٹر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف رہا ہے مگر جب سے بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی ہوئی، تب سے اس نے دیکھا تھاکہ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کا جنازہ نکل گیا اور نوازشریف کے لئے میدان کھلا دیکھ کر یہ ووٹر سپورٹر عمران خان کی طرف لپکے۔ لیکن اب اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے تویہ تمام لوگ اب امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دن رات اسی خواہش کے اسیر ہیں کہ ایک مرتبہ ٹرمپ عمران خان کا نام لے لے۔ اس سے بڑی کوتاہ بینی کیا ہوگی کہ پی ٹی آئی کا سیاسی نظریہ ٹرمپ کی آشیر بادبن چکا ہے۔
یہ ہیں وہ سیاسی غلطیاں جن کا خمیازہ پی ٹی آئی کو آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑے گا۔ اول تو ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لئے پاکستان پر چڑھائی نہیں کریں گے لیکن اگر انہوں نے غیر معمولی حد تک آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی کوشش کی توپراپیگنڈہ کرنے کے لئے مخالفین کے ہاتھ ایک اوربات لگ جائے گی اور آصف زرداری کی طرح عمران خان کو بھی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہمیں مراد سعید بار بار یاد آتے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ عمران خان آئے گی، دو سوارب ڈالرلائے گی، سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گی اورسو ارب ڈالر سے پاکستان کی قسمت بدلے گی۔ آج اگر وہ بیان دینے میں آزاد ہوتے تو یہی سننے کو ملتا کہ ٹرمپ آئے گی، عمران خان کو چھڑوائے گی اور عوام دوبارہ سے انہیں اقتدار میں لائے گی!
حسرت ان غنچوں پہ ہے جن بن کھلے مر جھا گئے