فیضاں مائی کو یقین تھا کہ اس بار پیشی پر اس کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا۔ اس نے ایک مہینہ بڑی مشکل سے گزارا تھا تب جا کے خدا خدا کرنے کے بعد تاریخ آئی تھی۔ وہ صبح سویرے اپنے دور دراز گاؤں میں واقع اپنے گھر سے چلی اور پیدل چل کر سڑک تک پہنچی جہاں کچھ دیر انتظارکے بعد اسے ملتان جانے والی بس مل گئی۔ بس نے اسے ساڑھے سات بجے اڈے پر پہنچا دیا۔ وہ خوش تھی کہ آٹھ ساڑھے آٹھ تک عدالت پہنچ جائے گی۔ کچہری پہنچ کر اس نے سکھ کا سانس لیا اور اپنے وکیل کے چیمبر میں گئی۔ وہ ابھی آئے نہیں تھے۔وہ عدالت گئی تو وہاں لسٹ میں اس کے مقدمہ کا نمبر موجود تھا۔ وہ پھر اپنے وکیل کے چیمبر میں آئی۔ تھوڑی دیر بعد وکیل کے منشی نے آکر بتایا آج صاحب عدالت پیش نہیں ہوں گے کیونکہ وکلاء نے ہڑتال کر دی ہے۔ یہ سن کر اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کہا میں تو بہت دور سے دھکے کھاتی آئی ہوں۔ بڑی مشکل سے آج تاریخ آئی ہے، یہ زیادتی کیوں کی جا رہی ہے۔ منشی نے رعونت سے کہا تم اکیلی نہیں، آج ہزاروں مقدمات کی سماعت نہیں ہو گی کیونکہ پورے ملتان ڈویژن میں وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔ وہ جج صاحب کے پاس عدالت میں گئی۔ ان سے کہا میرے مقدمے کا فیصلہ کر دیں۔ جج صاحب نے وکیل بلانے کا کہا، اس نے جواب دیا وکیل صاحب تو ہڑتال پر ہیں جج نے کندھے اچکائے اور پھر بولے، اب تو تاریخ ہی دینی ہوگی، کیونکہ وکیل کے بغیر تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے ایک ماہ کی تاریخ دے دی گئی۔ وہ روتی پیٹتی بسوں، چنگ چی رکشوں اور گاؤں جانے کے لئے بیل گاڑی کے دھکے کھاتی شام کے وقت جب اپنے گاؤں پہنچی تو اس کی بیوہ بیٹی نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔ اماں ”فیصلہ تھی گیا؟“(اماں فیصلہ ہو گیا؟) اس نے دکھ بھری آواز میں کہا ”ساڈا فیصلہ ہن اللہ ہی کریسی“(ہمارا فیصلہ اب اللہ ہی کرے گا) یہ ساری کہانی میرے ایک شاگرد نے مجھے سنائی، جو فیضاں مائی کا ہمسایہ ہے۔
آج میں نے جب یہ خبریں پڑھیں ہائی کورٹ بار ملتان کے صدر سجاد حیدر میتلا اور ہائیکورٹ ملتان پہنچ کر سینئر جج جسٹس سرفراز ڈوگر کے درمیان صلح ہو گئی اور وکلاء نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا تو مجھے یوں لگا کہ یہ فیضاں مائی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا ایک عمل ہے کاش یہ صلح ہڑتال کا اعلان کرنے سے پہلے ہو جاتی۔ ہائیکورٹ بار کا صدر اورہائیکورٹ کا جج ہونا دونوں ہی بڑے اہم اور معزز عہدے ہیں۔ اول تو ایسی کوئی نوبت آنی نہیں چاہیے کہ دونوں مقابل آکھڑے ہوں اگر کوئی ایسا واقعہ ہو بھی گیا ہے تو اس کا ایسا حل نکالنا چاہیے کہ ہزاروں سائلین کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ آپ کی صلح تو ہو ہی جانی تھی مگر فیضاں مائی جیسے غریبوں کو اذیت سے تو نہ گزرنا پڑتا۔ قصہ اس اجمال کا یہ ہے بورے والا بار کے ایک وکیل کے مقدمہ ء قتل میں ہائیکورٹ بار ملتان کے صدر ملک سجاد حیدر میتلا پیروی کررہے تھے دو روز پہلے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کی عدالت میں اس مقدمے کی تاریخ تھی۔ ملک سجاد حیدر میتلا کے معاون وکیل عدالت میں موجود تھے مگر وہ خود ابھی نہیں پہنچ سکے تھے۔ اس پر جج صاحب نے برہمی کا اظہار کیا۔ اسی اثناء میں ملک سجاد حیدر میتلا عدالت پہنچ گئے۔ وہ روسٹرم پر آئے تو جج صاحب نے وقت پر نہ آنے کی وجہ سے ان کی سرزنش کی۔ جس پر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور ذرائع کے مطابق ملک سجاد حیدر میتلا روسٹرم چھوڑ کر چلے گئے، انہوں نے بار روم جا کر سارا واقعہ بتایا اور ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ ہنگامی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگلے دن ہائیکورٹ کے تمام بنچوں سمیت ڈویژن بھر کی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی اگلے دن کے لئے بار روم میں احتجاجی جلسے کی کال بھی دے دی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا وہ کام جو اگلے دن کیا گیا، اسی دن کیا جاتا اور بائیکاٹ کی کال نہ دی جاتی۔ وکلاء عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی کال ایسے دیتے ہیں جیسے انہوں نے حلوہ پوڑی کا ناشتہ نہ کرنے کا اعلان کرنا ہو۔ وہ اس بات کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے کہ ان ہزاروں افراد کا کیا بنے گاجن سے وہ مقدمات کی فیس لئے بیٹھے ہیں اور وہ سب کام چھوڑ کے، صعوبتیں برداشت کرکے عدالت میں تاریخ پر آتے ہیں جہاں انہیں یہ خبر ملتی ہے کہ وکلاء ہڑتال پر ہیں اور اگلی تاریخ پڑ گئی ہے۔ خیر اگلے دن جب وکلاء ہڑتال پر تھے اور ہائیکورٹ بار روم میں احتجاجی جلسہ کررہے تھے تو جسٹس سرفراز ڈوگر عدالت سے اٹھ کر وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے ملک سجاد حیدر میتلا کو گلے لگا لیا۔ وکلاء نے اس منظر کو سراہا اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے عدالتوں کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔اس وقت آدھا دن گزر چکا تھا اور مقدمات کی تاریخیں پڑ چکی تھیں۔ ہائیکورٹ ملتان بنچ میں البتہ اس کے بعد مقدمات کی سماعت ہوئی تاہم ضلع کچہری میں بڑی حد تک عدالتوں نے تاریخیں دے دیں جبکہ وہاڑی، خانیوال اور دیگر شہروں تک یہ اطلاع بہت تاخیر کے پہنچی یوں ہزاروں مقدمات کی عدالتوں میں سماعت نہیں ہو سکی۔ اب بظاہر یہ ایک واقعہ ہے مگر حقیقت یہ ہے ہمارے وکلاء نے عدالتی بائیکاٹ کو ایک وتیرا بنا لیا ہے۔ احتجاج کے اور بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں، کیا ضروری ہے کہ اپنے سائلوں کو تکلیف دے کر آپ اپنی طاقت کو منوائیں۔ وکلاء کے لئے تو اس میں کوئی پریشانی یا حرج نہیں ہوتا مگر فیضاں مائی جیسے غریب عوام رُل جاتے ہیں۔ پاکستان کا نظام انصاف تو پہلے ہی دنیا میں ریٹنگ کے لحاظ سے آخری نمبروں پر ہے۔ اس بات کو حکومتی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان بھی گاہے بہ گاہے اس رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ بار اور بنچ کو مل کر سستے اور فوری انصاف کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ بار ایسوسی ایشنوں کا کام صرف یہی تو نہیں کہ وہ وکلاء کے حقوق کا تحفظ کریں۔ ان کا کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے سائلوں کی مشکلات حل کرنے اور انہیں انصاف دلانے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ یہاں ایسے واقعات معمول کی بات ہیں کہ جج صاحبان کو کوئی وکیل طیش میں آکر برا بھلا کہتا ہے، حتیٰ کہ تشدد کے واقعات بھی ہماری عدالتی تاریخ میں موجود ہیں۔ جسٹس (ر) افتخار کے دور میں تو وکلاء کو اتنی زیادہ چھوٹ مل گئی تھی کہ نچلی عدالتوں کے جج اپنی پگڑی سنبھالتے پھرتے تھے۔ صریحاً زیادتی کا شکار ہونے کے باوجود نزلہ جج پر ہی گرتا تھا اور اس کے سامنے دو راستے رکھے جاتے تھے یا وکلاء سے معافی مانگ لو یا پھر ٹرانسفر ہونے کے لئے تیار ہو جائے۔ عدالتی نظام کے تین فریق ہیں۔ جج، وکلاء اور سائل، مگر بدقسمتی سے مسائل کو فریق سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسے صرف فیس لینے کی حد تک اہمیت دی جاتی ہے اس کے بعد وہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔