سعداللہ شاہ کا شعرملاحظہ کیجیے
مصلحت کوشو اٹھو خواب لٹے جاتے ہیں
زندہ رہنے کے بھی اسباب لٹے جاتے ہیں
کیا نوبت آگئی
حکومت شکوہ کررہی ہے ”کا م“ کرنا چاہتے ہیں اپوزیشن کرنے نہیں دیتی ۔۔۔
اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت نا اہل ہے مسائل حل کرنے یا ”کام “ کرنے کی صلاحیت نہیں
عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے ”کام“ کرنا چاہتی ہے لیکن اسے کام نہیں ملتا
کوئی ہے جو ”کام “کرنا چاہتا ہے یا ”کام “ کی بات کرے
بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
پینے کا پانی آلودہ ، خوراک ملاوٹ شدہ ، مہنگائی جان لیوا ، ٹیکس بے شمار ، اور اب سانس لینا بھی دشوار ۔۔۔وجہ سموگ
صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بچے حکومتوں سے ”کام “ کروانے کیلئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں ، لاہور میں 3 سالہ بچی فضائی آلودگی کیخلاف عدالت عالیہ جا پہنچی ہے۔3 سالہ بچی نے مؤقف اپنایا ہے کہ درخواست گزار اپنے دوستوں، کلاس فیلوز اور آئندہ نسل کی بہتری کے لیے درخواست دائر کر رہی ہے، کمسن بچے اور بزرگ فضائی آلودگی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
عدالتوں کی بات کریں تو ملک بھر میں دہشت گردی کے 2273 مقدمات زیر التواءہیں ، سندھ 1372 مقدمات مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں۔سپریم کورٹ میں 97 ارب کے 3 ہزار 496 مالیاتی مقدمات زیر التوا ءہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے، دیگر مقدمات ان کے علاوہ ہیں ۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججز کے ہاؤس رینٹ اور جوڈیشل الاؤنس میں بڑااضافہ کردیا ہے۔ صدارتی ترمیمی حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ کے ججز کا ہاؤس رینٹ 68 ہزار روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس 4 لاکھ 28 ہزار 40 روپے سے بڑھا کر 11 لاکھ 61 ہزار 163 روپے کردیا گیا ہے۔اسی طرح ہائی کورٹ کے ججز کا ہاؤس رینٹ بھی 65 ہزار سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے کر دیا گیا جبکہ جوڈیشل الاؤنس 3 لاکھ 42 ہزار سے بڑھا کر 10 لاکھ 90 ہزار کردیا گیا۔
بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
مہنگی بجلی کے باعث 30 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی ،ہزاروں نہیں لاکھوں مزدور بے روزگار ہو چکے ،30 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے محنت کش طبقے کی آدھی آمدن بجلی کے بل ادا کرنے میں خرچ ہو رہی ہے۔بجلی چوری اور لائن لاسز کی مد میں ہونے والا نقصان بھی صارفین سے پورا کیا جا رہا ہے، دنیا کی مہنگی ترین بجلی فروخت کرنے کے باوجود بجلی کے بلوں میں ٹیکسز کی بھرمار ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں ڈسکوز نے نیپرا سے 8 ارب 70 کروڑروپے پاکستان بھر میں صارفین سے 2024-25 کی پہلی سہ ماہی میں مختلف ایڈجسٹمنٹس کی مد میں وصول کرنے کی منظوری طلب کی ہے۔ اضافی چارجز پر 18 فیصد جی ایس ٹی سے صارفین پر مزید 1.566 ارب کابوجھ آئے گا،اوربھی کئی ٹیکس ہیں جوڈسکوز کی نااہلیوں کی وجہ سے صارفین کو ادا کرنا پڑیں گے۔دوسری جانب وفاقی وزیر پاور ڈویژن سردار اویس لغاری کی خواہش ہے کہ ”عوام سردیوں میں گیس کی جگہ بجلی استعمال کریں“
بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گھنٹی بجا دی ہے کہ موجودہ مالی سال کے اندر ٹیکس میں اضافہ نہ ہوا تو تنخواہ دار طبقے اور صنعتوں پر ٹیکس بوجھ بڑھانا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ” اصلاحات سے بعض لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے، مڈل مین کی وجہ سے دالیں60فیصد اور مرغی15فیصد مہنگی ہوئی حکومت نے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں جائزہ لیا کہ دالیں اور مرغی کیوں مہنگی ہوئی ہے کیونکہ عالمی منڈی میں اجناس سستی ہوئی ہیں، ایندھن سستا ہوا ہے“۔
یہی تو مسئلہ ہے کبھی” نا معلوم افراد“ قابو نہیں آتے ، کبھی”لا پتہ افراد “ قابو نہیں آتے اور آجکل ”مڈل مین “ قابو نہیں آ رہے ۔۔۔
”کام “ نہ کرنے کا نتیجہ صرف اس ایک لائن سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں 50 فیصد سے زائد سمگل شدہ سگریٹس کی فروخت سے سالانہ 300 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے ۔
اور یہ بھی ”کام “ نہ کرنے کا نتیجہ ہی ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ راول ڈیم میں روزانہ کی بنیاد پر 9 ملین گیلن سیوریج جا رہا ہے، ہم راول ڈیم سے آنے والا آلودہ پانی پی رہے ہیں، مقامی حکومت کس طرح کام کر رہی ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
بات کریں پی آئی اے کی تو وفاقی وزیر خزانہ واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ”حکومت پی آئی اے کو رکھ نہیں سکتی، دوبارہ نجکاری ہوگی“اس معاملے میں کس نے ”کام “ دکھایا ، مڈل مین نے یا نا معلوم افراد نے ۔؟ فی الحال اکبر ایس بابر کا یہ جملہ کافی ہے ” جو حکومت پرائمری سکول نہیں چلا سکتی وہ چلی تھی پی آئی اے چلانے“اس جملے کا پس منظر کیا تھا اس پر تبصرہ پھر کبھی
بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
اب یہاں کیا اور کون ”کام“ کرے کہ وفاق اور صوبے گندم بقایاجات کی مد میں پاکستان ایگریکلچر اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن لمیٹڈ (پاسکو) کے 194ارب روپے کے نادہندہ ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ کی زیر صدارت ای سی سی اجلاس کی ”اندرونی کہانی “کے مطابق وزارت خزانہ پر پاسکو کے سب سے زیادہ 91ارب 28 کروڑ روپے واجب الادا ہیں جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے پاسکو کو 37ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ پنجاب حکومت نے پاسکو کو 32ارب46کروڑ روپے دینے ہیں جبکہ سندھ حکومت پر پاسکو کے17ارب 46 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت نے پاسکو کو 10ارب 9کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ گلگت بلتستان حکومت نے پاسکو کو 4ارب 13کروڑ روپے دینے ہیں۔ پاک فوج پر بھی پاسکو کے1 ارب 84کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔
بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
بارڈر سے ایک خبر سامنے آئی ، ناجانے کیوں عام آدمی کی عادت نہیں بدلی آج بھی صحافیوں کو اپنے مسائل کے حل کا ”ذریعہ “ یا ”نجات دہندہ “ سمجھتے ہیں ۔۔۔حالانکہ صحافی کی اپنی صحافت کسی بھی سیاستدان یا با اثر شخصیت کی ایک کال پر” ٹکی “ہوئی ہے ۔۔۔۔۔بہرحال خبر میں ”کام “ کی بات یہ تھی کہ پاک ایران بارڈر کی بندش کیوجہ سے لاکھوں نوجوان بیروزگار ہ چکے ہیں ،سرحدی علاقوں میں عوام کو باعزت روزگار کی فراہمی کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے،پاک ایران بارڈر بندش کی وجہ سے بلوچستان کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں ایرانی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے ،نہ صرف تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا بلکہ لاکھوں نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں، کیونکہ ہزاروں لوگوں کے گھروں کے چولہے صرف بارڈر کی وجہ سے جلتے ہیں، صوبے میں سرکاری ملازمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ ایرانی تیل کا کاروبار کر کے اپنے گھروں کا گزر بسر کرتے تھے، لیکن جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے ایرانی تیل پر آئے روز پابندی لگادی جاتی ہے۔
بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
شہروں میں جگہ جگہ بھکاری اور منشیات کے عادی افراد کی بھرمار ہے ، گاو¿ں ، دیہاتوں میں کیا صورتحال ہو گی ، یہ بھکاری اور منشیات کے عادی افرادگندگی اور بیماریاں پھیلانے کا بڑا سبب ہیں، جرائم میں بھی ملوث ہیں لیکن کوئی ان پر ”کام “ کرنے کو تیار نہیں ،کراچی اور لاہور میں یہ مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ کراچی جسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے وہاںامن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ رواں برس مختلف واقعات میں قتل کے 517 اور اقدام قتل کے637واقعات رپورٹ ہوئے، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے94شہری قتل جبکہ 364 زخمی ہوئے۔پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں برس ڈکیتی مزاحمت کے دوران 364 افراد زخمی بھی ہوئے۔سال 2023 میں 31 اکتوبر تک ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 94 افراد قتل اور 417 زخمی ہوئے تھے۔
صرف کراچی شہر میں 10ماہ کے دوران اغواءکے 2ہزار 392، اغواءبرائے تاوان کے 58جبکہ بچوں کے اغواءکے 336 واقعات رپورٹ ہوئے۔
لاہور کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں ۔۔۔۔ڈر لگتا ہے۔
باقی شہروں کی صورتحال کیا ہو گی؟ اس کیلئے اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ۔۔۔۔بس جیے جا رہے ہیں خدا کے سہارے ۔۔۔۔
دستیاب اعداد و شمار کے بعدایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران ساڑھے 3 لاکھ افراد فالج کا شکار ہوجاتے ہیں،اس تعداد میں تقریباً 40 فی صد حصے کی موت واقع ہوجاتی ہے۔۔۔۔شاید ملک کا موجودہ نظام بھی فالج زدہ ہو گیا اسی لیے سو فیصد ”کام “ نہیں کر رہا ۔۔۔۔
یاد کروانا ضروری ہے کہ ابھی چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کی نو منتخب اسمبلی کا اجلاس ہوا ، اجلاس میں ہنگامہ آرائی یہاں تک آ پہنچی کہ بی جے پی ارکان کو باہر نکال دیا گیا۔۔۔”کام “ نہ کرنیوالوں یا ”غلط کام “ کرنیوالوں کا حشر یہی ہونیوالا ہے خواہ وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں اور ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو ۔
آخر میں برادرم ثقلین جعفری کا شعر
کیسا آسیب ہے بستی میں کوئی شاد نہیں
لوگ رہتے ہیں مگر جیسے کہ آباد نہیں
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں