کرناک مندر دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی عمارتوں کا مجموعہ ہے،مندر کے 3حصے بند ہیں، دروازے کے دونوں طرف فرعون بادشاہوں کے دیو ہیکل مجسمے تھے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:57
کرناک مندر
کرناک مندر الأقصر کے قریب ہی واقع تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کمبوڈیا میں بدھ مت کے عظیم الشا ن آنگ کور واٹ مندروں کے بعد یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی عمارتوں کا مجموعہ ہے اور مصر میں سیاحت کی غرض سے داخل ہونے والے سیاح یہاں اپنی حاضری کو یقینی بناتے ہیں۔ویسے تو اس مندر کے 4 حصے ہیں، تاہم سیاحوں کے لئے صرف ایک یعنی سب سے بڑے حصے کو کھولا گیا ہے، باقی سب علاقے غالباً اپنی خستہ حالی کی بدولت عوام کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں۔وہاں لڑھکتے پھرتے پتھروں کے سوا کچھ تھا بھی نہیں۔
فرعونوں کے اس عظیم الشان معبد میں داخل ہوئے تو ہر طرف ایک خواب زدہ سا ماحول بنا ہوا تھا۔ مندروں کے بیسیوں فٹ اونچے اور گول پتھریلے ستونوں کے بیچ میں گھومتے پھرتے سیاح مسحور کن نگاہوں اور بے یقینی کی سی کیفیت سے ہر طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ ان دیو قامت ستونوں کے آس پاس پھرتے بالکل چھوٹے چھوٹے بونوں کی مانند لگ رہے تھے، ان ستونوں پر قدیم مصری زبان میں نیچے سے اوپر تک تحریریں اور دیوتاؤں کی تصاویر کھدی ہوئی تھیں۔ وسیع و عریض احاطوں میں مندروں اور دوسری عمارتوں کے کھنڈرات ابھی تک موجود تھے جن میں سے کچھ تو اتنے مکمل تھے کہ ان کو کھنڈر کہنا بھی ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ ان میں سے بعض کی تو چھتیں بھی ابھی تک موجود تھیں جو اونچے اونچے ستونوں پر ایک باوقار انداز میں ٹکی ہوئی تھیں۔ ان کے اندر بنے ہوئے کمروں کا تو کوئی حساب ہی نہیں تھا۔ ہر مندر کے دروازے کے دونوں طرف فرعون بادشاہوں کے دیو ہیکل مجسمے موجود تھے جن کے چہروں کو دیکھنے کے لئے آسمانوں کی طرف جھانکنا پڑتا تھا۔ ان میں سے کچھ تو نشستی حالت میں تھے اور کچھ اسی طرح اپنا شاہانہ لباس زیب تن کیے اکڑ کر کھڑے ہوئے تھے۔ کچھ کے ہاتھ سینوں پر ایک خاص انداز میں بندھے اور کچھ کے کھلے ہوئے تھے۔ احمد نے بتایا کہ جن کے ہاتھ سینوں پر بندھے ہیں یہ وہ فرعون حکمران ہیں جو ان کے مجسموں کی تیاری سے پہلے ہی اس جہاں سے رخصت ہو گئے تھے۔ البتہ کھلے ہاتھوں والے فرعون بادشاہوں کے مجسمے ان کی زندگی میں ہی تیار کئے گئے تھے۔کچھ ایسے ہی بندھے ہوئے ہاتھ میں نے قاہرہ کے عجائب گھر میں شاہی ممیوں کے بھی دیکھے تھے، خود کو عظیم کہلانے والا رعمیسس ثانی بھی اسی طرح ہاتھ سینے پر باندھے قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑا اپنی حیات ثانیہ کا انتظار کر رہا ہے۔
باہر بڑی گزر گاہ کے ایک طرف قطار میں کوئی تیس چالیس ابوالہول کے مجسمے بنے ہوئے تھے اور دوسری طرف اتنی ہی تعداد میں پہاڑی بکروں کے مجسمے موجود تھے۔ یہ سب اتنی خوبصورتی سے اور ناپ تول کر بنائے گئے تھے کہ ایک سے دوسرے کی شکل اور ہیت میں ذرہ برابر بھی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ ان مجسموں کے سامنے فرعونوں کے ننھے منھے مجسمے بھی کھڑے کر دیئے گئے تھے، جو غالباً ننھے شہزادے شہزادیوں کے تھے۔
اس کے علاوہ جہاں تک نظر جاتی تھی،ہر طرف دیوتاؤں کے بیٹھے اور کھڑے ہوئے مجسموں کی ایک فوج ظفر موج نظر آتی تھی۔ بادشاہ رعمیسس ثانی کے دیو ہیکل مجسمے بھی اس احاطے میں جگہ جگہ نصب تھے اور اگر سچ پوچھیں تو لگتا تھا کہ یہ مندر بھی غالباً اسی کے بنائے ہوئے تھے۔کیونکہ جدھر دیکھتے تھے ادھر وہ ہی وہ تھا۔
مندروں کی اونچی اور مضبوط سنگلاخ بیرونی اور اندرونی دیواریں ان کی تاریخ کے بارے میں کھودی گئی تحریروں سے بھری پڑی تھیں مزید وضاحت کے لئے ان پرجگہ جگہ تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں جن میں ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک کہیں کہیں اصلی رنگ جھلکتا نظر آ جاتا ہے۔ان تصویروں میں ان کو روز مرہ کی شہنشاہی اور ذاتی سرگرمیوں میں مشغول دکھایا گیا تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں