دوسروں کے رویئےکو ترجیح دینا تباہ کن ہے، آپ کی قدر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہے اور دوسرے لوگ آپ کا مزید استحصال کرتے ہیں
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:44
اپنے روئیے اورطرزعمل کے مقابلے میں دوسروں کے روئیے اورطرزعمل کو ترجیح دینے کا عمل بہت ہی زیادہ نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ آپ کی اہمیت اور قدر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہے اور وہ اگر پھربھی آپ کو اپنی خوشنودی اور رضامندی سے سرفراز نہیں کرتے تو پھر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، پھر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا ہے، آپ کو دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی کی مزید ضرورت پیش آتی ہے اور دوسرے لوگ آپ کا مزید استحصال کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں آپ اپنی مرضی اور خواہش کو بروئے کار لانے اور آزاد اندازفکر اپنانے پر مبنی رویہ اور طرزعمل اپنانے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ آپ کی طرف سے یہ مثبت اورصحت مند رویہ خودغرضی سمجھا جاتا ہے جو آپ کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق عمل کرنے کی ایک کوشش کے طو رپر اپناتے ہیں۔ استحصال پر مبنی اس مکروہ اورنقصان دہ جال اور چکر سے متعلق فہم اورآگہی حاصل کرنے، معاشرے کی طرف سے دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے کے پیغامات کی ضرررسانی اور نقصان دہ نوعیت کو سمجھئے جس کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب آپ بچے تھے اوریہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
اپنے خاندان کی طرف سے خوشنودی و رضامندی کے حصول کے
ضمن میں ابتدائی پیغامات واشارے
اس امر پر زو ردینے کی بہت اہمیت ہے کہ چھوٹے بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں میں اپنے سے بڑے افراد(والدین) کی طرف سے خوشنودی ورضامندی کی ضرورت واقعی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ خوشنودی و رضامندی لازمی نوعیت کی نہیں ہونی چاہیے اورنہ ہی بچے کو اپنے ہر معاملے میں والدین کے احکامات کی ضرورت محسوس ہونی چاہیے۔ بچے کو اپنے اوپر اعتماد کرنے کا سبق بھی دیا جا سکتا ہے اوراپنے والدین کی طرف سے خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے کے عمل کو ان کی طرف سے محبت وپیار پر مبنی روئیے کے باعث الجھن میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بڑے ہونے پر ایک فرد کو دوسروں یا بڑے افراد کی خوشنودی اور رضامندی کی ضرورت محسوس نہ ہو تو پھر اسے بچپن ہی سے آزاد اندازفکر اور سوچ کا عادی بنا دینا چاہیے۔ بہرحال اگر ایک بچہ بڑا ہوتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی والدین سے اجازت حاصل کیے بغیر نہ کچھ سوچ سکتا ہے اورنہ ہی کوئی قدم اٹھا سکتا ہے تو پھر اس میں اپنی ذات پر شکوک اور بے اعتمادی کے بیج پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ذیل میں ایک ایسی صورتحال پیش کی گئی ہے جس میں ایک بچہ اپنے والدین کی طرف سے محبت و شفقت پرمبنی سلوک کے بجائے والدین کی طرف سے ایک ایسے سلوک کا سامنا کرتا ہے جہاں اسے ناگزیر طورپر والدین کی طرف سے ان کی خوشنودی ورضامندی حاصل کرنا پڑتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر معاملات کے حوالے سے بچے کو یہ سکھایا اور پڑھایاجاتا ہے کہ اسے اپنی مرضی اور خواہش کے بجائے دوسرے افراد (والدین، اساتذہ وغیرہ) کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔ مثلاً وہ اپنے والدین سے یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے: ”میں کیا کھاؤں، کب کھاؤں، کتنا کھاؤں اور کہاں کھاؤں۔“ پھر بچہ اپنے والدین (والد یا والدہ) سے یہ اجازت لیتا ہے: ”میں کس کے ساتھ کھیلوں؟ میں کب کھیلوں؟ کہاں کھیلوں؟“ والدین (والد یا والدہ) بچے سے کہتے ہیں: ”یہ تمہارا کمرا ہے لیکن تمہیں یہ کمرہ اس طرح (والدین کی مرضی کے مطابق) رکھناچاہیے، کپڑوں کو اس طرح (والدین کی مرضی کے مطابق) لٹکا دو، بستر کوصحیح کرو، کھلونوں کو کھلونے والے ڈبے میں رکھو وغیرہ۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔