عشقِ رسول ﷺ کی تازہ لہر (2)

ایک طرف فلوریڈا کے ملعون عیسائی ٹیری جونز نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے لئے.... Burning Quran day.... جیسی کمینی حرکت کا سلسلہ شروع کرکے امت مسلمہ کے جذبات کو چھلنی کیا ۔دوسری طرف ملعون اسرائیلی فلم میکر ”ملعون سام بے اصل “ نے توہین رسالت پر مشتمل فلم بنا کر Global}} {{crime کا ارتکاب کرتے ہوئے امت کو نہ بھولنے والا زخم لگایا ۔ایسے میں بے عمل سے بے عمل مسلمان کی بھی جو کیفیات ہیں وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتیں۔ یہ واضح ہے کہ اسلام اپنی املاک کو جلانے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن حالت احتجاج میں نکلے ہوئے انسان کو بالخصوص جب اسے کسی کی طرف سے توہین رسالت کی خبر مل چکی ہو توایسے میں آپ اسے اپنے کسی ذہنی تہذیبی سانچے میں ڈھالنا چاہیں تو بہت مشکل ہے۔ قرآن مجید میں سورة النساءآیت نمبر148 میں اللہ تعالی نے واضح فرمایا کہ ”اللہ تعالی پسند نہیں کرتا بری بات کا اعلان، مگر مظلوم سے “....جس مسلمان کے جذبات کو گستاخانہ فلم کی خبر سن کر جو ٹھیس پہنچی ہے اور پھر وہ بے بسی میں زندگی بسر کر رہا ہے] یہ مظلومیت کی اس حد تک پہنچا ہے کہ اس کے انداز اظہار کو شریعت نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ بخاری شریف میںکتاب الصلح میں حدیث نمبر 2691ہے کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق نے رسول اللہ کی سواری کی توہین کی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب میں کہا: خدا کی قسم میرے رسول کا دراز گوش (گدھا) تجھ عبد اللہ بن ابی سے کہیں زیادہ خوشبو والا ہے ، بلکہ تفسیر جلالین میں صفحہ نمبر 427پر ہے۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ کی سواری (گدھے ) کا پیشاب بھی تجھ سے کہیں زیادہ خوشبو والا ہے۔ پھر وہاں پر ڈنڈوں سے مکوں سے ،جوتوں سے لڑائی ہوئی، مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عشق رسول ﷺ کا جو مظاہرہ کیا ۔رسول اللہ ﷺ نے اس کی حمایت کی۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات تو کیا سواری کی توہین پر جو امت کا رد عمل ہونا چاہیے، اس حدیث میںاس کے لئے ایک جامع سبق موجود ہے ۔ہمارے بعض دانشوروں کو اب تک شاید عشق رسول ﷺ کی حرارت معلوم کرنے کا تھرمامیٹر ہی میسر نہیں آسکا ۔ جس شخص کے محور محبت پر حملہ ہو چکا ہو اور وہ صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے باہر نکلا ہو، عقل تسلیم نہیں کرتی کہ وہ بینک ڈکیٹی جیسی گھٹیا حرکت کرے ،جو بے بسی میں شوریدہ حال ہو، وہ ہسپتال کیا جلائے گا ۔ یوم عشق رسول ﷺ کے موقع پر کچھ ٹی وی چینل چند تخریب کاروں کی خرابی دکھاتے رہے، مگر کروڑوں عاشقان رسول ﷺ کی بے تابی دکھانے سے محروم رہے ۔ انہیں کسی گلی میں چند لوگ ڈنڈا چلاتے تو نظر آ گئے، مگر مال روڈ لاہور پر سنی اتحاد کونسل کے جلوس میں لاکھوں اہل محبت عشق و مستی میں نعرے لگاتے نظر نہیں آئے ۔
مجھے اس روز جیو نیوز کے پروگرام ” مجھے مصطفی ﷺ سے پیار ہے “ میں شرکت کرنا تھی۔ شملہ پہاڑی لاھور کے ادر گرد تقریبا ایک گھنٹہ آنسو گیس سے آنکھیں پُرنم اور حلق تلخ کر کے مَیں جیو پروگرام میں پہنچا تو محسوس ہو رہا تھا شاید پروگرا م کا موضوع ہی بدل گیا ہے ۔ شعر و سخن ،فکر و نظر ،عشق و مستی ، دلیل و دانش اور فہم و فراست کے ہمراہ تند وتیز لہجے اور بیتاب جذبے سے جو چڑھائی گستاخان رسول ﷺ اور او آئی سی کے مردہ گھوڑوں پر کرنا تھی، لگتا تھا کہ اس کا رخ بدل گیا ہے۔ہمارا میڈیا بذات خو دایک المیہ ہے ۔یہ ہر وقت دباﺅ میں ہوتا ہے یا بر وقت دباﺅ میں آجاتا ہے ۔ اس مقدس احتجاج کی آڑ میں آ کر چند مٹھی بھر شر پسندوں نے فساد کیا ہے تو اسے کروڑوں عاشقان رسول ﷺ کے لئے بطور گالی کیوں استعمال کیا گیا ؟ چند محدود مقامات پر کچھ افسوسناک واقعات کی بنیاد پر پوری ملت کے نہایت مقدس اور ایمانی احتجاج کو شرم اور فساد سے تعبیر کرنا بذات خو د ایک بے شرمی اور فساد ہے ۔لگتا ہے کہ اس تاریخی ایمانی احتجاج کو غیر موثر بنانے کے لئے کچھ لوگوں کو آلہ کار بنایا گیا اور رہی سہی کسر میڈیا نے نکال دی۔ کراچی اور پشاور، جہا ں جرائم پیشہ لوگوں کی طرف سے فسادات روز مرہ کی بات ہے یا کالعدم تنظیموں کے بعض مٹھی بھر افراد کسی ایسی سر گرمی میں اگر شریک پائے گئے ہیں تو اس بنیاد پر کروڑوں عاشقان رسول ﷺ کی اس مقدس حاضری کے ایمانی انداز کو اجاگر نہ کرنا، بلکہ بے جا طعنے دینا ایک بہت بڑی زیادتی ہے اور مغربی ایجنڈے کا وار ہے ۔ہمارے دانشور عوا م کو صبر کی بار با ر تلقین کر رہے ہیں اور صبر بہر حال ایک اچھی بات ہے، مگر حکمرانوں کو بھی بے صبری کی تھوڑی سی تلقین کر دیں جو توہین رسالت پر اتنے بڑے حملے کے بعد بھی امریکہ کے سامنے بزدلانہ خاموشی پر صبر کئے ہوئے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت مسلم امہ کے حکمران اس کڑی آزمائش کی گھڑی میں امت مسلمہ کی ترجمانی میں بری طرح ناکام رہے ہیں ۔(ختم شد) ٭