پاکستان ریلوے...

پاکستان ریلوے...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

. افکارِ پریشاں  (5)راقم کے دورانِ ملازمت 1984ءمیں سبی،کوئٹہ الیکٹریفیکیشن کا بہت شور ہوا۔ فرم کے لوکل نمائندگان بہت متحرک تھے۔ فرم کا MD ایک 18/19 سال کا لڑکا ایک سرکاری محکمہ میں ڈائریکٹر فنانس کا بیٹا تھا۔ بلوچستان کی اُس وقت کی صوبائی حکومت اور سینیٹرز نے باجماعت اس پراجیکٹ کی سفارش کی۔ اس سے بلوچستان کے عوام کو تو کیا فائدہ پہنچتا، لیکن سفارش کنندگان سے ضرور کوئی نہ کوئی سچا جھوٹا وعدہ کیا گیا تھا، کیونکہ لوکل ایجنٹ نے راقم کو بھی 5 لاکھ کی پیش کش کی تھی، تاکہ میں اُن کی راہ میں نہ آو¿ں اور اس پراجیکٹ کو مالی طور پر قابل عمل (viable) ثابت کروں۔ میں نے فوراً اُس وقت کے چےئرمین کو اس خباثت سے مطلع کردیا اور تجویز پیش کی کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو مجھے متعلقہ data فراہم کرے، اور میں اُس بنیاد پر پراجیکٹ کی viability نکال سکوں جو صرف 4 فیصد کے قریب تھی،جبکہ حکومت پاکستان کے مقرر کردہ معیار کے مطابق یہ 12 فیصد سے کم نہیں ہونا چاہئے تھی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اُس وقت کے منسٹر پلاننگ نے، جو بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے، عجب توضیح فرمائی کہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے بلوچستان امریکہ کی ایک ریاست (نام یاد نہیں آرہا، شاید کیلی فورنیا) کی طرح ترقی کرجا ئے گا۔ بلوچستان گورنمنٹ اس پراجیکٹ کے لئے دباو¿ ڈال رہی تھی۔ حقیقت پر مبنی ایک سمری غلام اسحاق خاں مرحوم کو بھیجی گئی، جس میں ساری صورتِ حال بیان کردی گئی۔ اس طرح یہ پراجیکٹ اپنی موت آپ مرگیا۔ایک سیاسی منسٹر نے اپنی پہلی ملاقات میں راقم سے پوچھا کہ ٹرینوں کی سپیڈ کس طرح بڑھائی جائے؟ راقم نے بتایا کہ ٹرین کے لوڈ اور سپیڈ کا آپس میں براہِ راست تعلق ہے۔ لوڈ کم کردیں تو سپیڈ بڑھ جائے گی، بشرطیکہ ٹریک، کوچز اور سگنل سسٹم اس کی اجازت دیں۔ اُنہیں بتایا کہ اس طرح کی ایک کوشش تیزگام ٹرین کے سلسلے میں کی گئی تھی، جس سے تیز گام کی آمدن میں کمی ہوگئی۔ اس لئے اس کوشش کو ترک کردیا گیا۔ پوچھا کہ یورپ میں گاڑیوں کی رفتار تیز کیوں ہے؟ بتایا کہ وہاں دو یا اس سے زیادہ انجن لگائے جاتے ہیں اور ڈبوں کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ پاکستان ریلوے... پاس انجنوں کی تعداد کم ہے، جبکہ ہماری بعض ٹرینیں 22 ڈبوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ منسٹر صاحب نے انکشاف فرمایا کہ ریلوے کے ایک افسر نے اُنہیں بتایا کہ ٹرینوں کی رفتار بڑھانا ممکن ہے۔ چند دنوں کے بعد راقم کے ایک رفیق کار نے، جو وزارت سے رےلوے میں ٹرانسفر ہوئے (بعد میں جنرل منیجر بنے)، الوداعی ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ مَیں نے وزیر صاحب سے ملاقات کا ذکر کیا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون افسر ہوسکتا ہے۔ کہنے لگے، یہ میں ہی تھا، کہ منسٹر کی بات تو ماننی چاہئے۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ خرابیاں کیونکر جنم لیتی ہیں۔بات چل نکلی ہے تو ایک اور چشم کشا واقعہ بیان کردوں۔ ان وزیر صاحب کے چارج سنبھالتے ہی ان کو چین یاترا کے لئے تیار کرلیا گیا۔ لوکل ایجنٹ نے سارے انتظامات مکمل کرلئے۔ وفد میں وزیر کے پی۔اے اور ان کے علاقے کے سیاسی کارکن بھی شامل تھے۔ واپسی پر ہیڈ کوارٹر میں میٹنگ ہوئی۔ ایک جنرل منیجر لیول کے افسر بھی ان کے ساتھ گئے تھے۔ فرمایا کہ چین کی فرموں کے ساتھ مل کر ایک shopping list تیار کی گئی ہے۔ اُس کے مطابق پراجیکٹ تیار کرکے حکومت سے اُس کی منظوری حاصل کی جائے۔ مجھے یہ بات سُن کر جیسے آگ لگ گئی۔ گویا کہ ہم چین کے ایجنٹ ہیں۔ میں نے میٹنگ میں planning process، جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان مراحل کا ذکر کیا کہ یہ سارے مراحل طے کرنے کے بعد مشین اور equipment کی درآمد کی سٹیج آتی ہے۔ اس پر مذکورہ جنرل منیجر، جوو زیر صاحب کو چین کی یاترا کروانے کے لئے لے گئے تھے، کا رنگ زرد پڑگیا۔ وزیر صاحب نے جو چےئرمین صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے، پوچھا کہ ان صاحب (راقم) کی ملازمت میں کتنے دن باقی ہیں (یہ بات میٹنگ کے بعد مجھے چےئرمین صاحب نے بتائی) مذکورہ جنرل منیجر، جو اتفاق سے بعد میں چےئرمین بن گئے، نے میری اس ”گستاخی“ کو معاف نہیں کیا اور اپنے چےئرمین بننے کے دس دن کے اندر اندر مجھے چلتا کیا۔جس طرح کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، لوگ ریلوے ٹریک ڈبل کرنے کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ وزیر کے کان میں لوگ یہ تجویز پھونک دیتے ہیں۔ ریلوے کے پرنسپل افسروں کی میٹنگ میں اس پر بحث ہوئی۔ انجےنئرنگ سیکشن نے اربوں روپے کا تخمینہ لگایا، لیکن اس کے فوائد جو ریلوے کو حاصل ہوتے اس کا کوئی ذکر نہ تھا۔ راقم نے کہا کہ ریلوے کے آپریٹنگ آفیسر یہاں بیٹھے ہیں، اُن سے پوچھ لیا جائے کہ آیا وہ اس پراجیکٹ کی افادیت کو محسوس کرتے ہیں؟ کسی نے ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیا۔ راقم نے تجویز پیش کی کہfeasibility study کروالی جائے، جو نتائج سامنے آئیں، اُن کے مطابق عمل کیا جائے۔ چلتے چلتے ریلوے کے پرسونل (personnel) ڈیپارٹمنٹ کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ یہ ادارہ پبلک سیکٹر میں بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ 1975-80ء کے دوران اس ادارے میں اوسطاً 138,000 ملازم تھے، جو کم ہوکر اب 84,000 کے قریب رہ گئے ہیں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اس شعبہ کی سربراہی کے لئے کسی management یا administration کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیف پرسونل آفیسر کی اکثریت انجےنئرنگ کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افسروں سے تعلق رکھیتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جنرل کیڈر کی پوسٹوں پر اپنے کیڈر کے لوگوں کو تعینات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنے کیڈر کو promote کرتے ہیں۔ یہی حال وزارتِ ریلوے میں سیکرٹری ریلوے بورڈ کے تحت administration اور establishment کے محکموں میں ہوتا۔ ہے۔ اگرچہ اس امر میں میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا، میں نے ایک سیکریٹری ریلوے بورڈ، جو مکینیکل کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے، سے پوچھا کہ آپ نے ڈائریکٹر MIS کے لئے مکینیکل کے فلاں آفیسر کو کیوں promote کروایا، جبکہ سول انجےنئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والا فلاں آفیسر زیادہ سینئر اور زیادہ تجربہ کار موجود تھا؟ کہنے لگے کہ اپنے بچوں کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ یہ حضرت دین دار اور ایمان دار مشہور تھے۔اس شعبہ کا ایک الگ کیڈر نہ ہونے کے باعث اس شعبے کا سربراہ، یعنی چیف پرسونل آفیسر پرانے کلرکوں پر بھروسہ رکھتا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کا ایک ڈویژن O&M (Organization & Method) کہلاتا تھا۔ آج کل یہ Management & services ڈویژن کہلاتا ہے۔ ایک زمانے میں ریلوے اُمور پر ایک سٹڈی کی تھی۔ جس سے اُنہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ ایک کلرکوں کے زیر اثر (clerk ridden) ادارہ ہے، جبکہ ورلڈ بنک نے افسروں کے تعلق سے اسے inward looking بیوروکریسی کا خطاب دیا۔ آج کے دور میں human resource ایک specialised field ہے، جو اپنے ادارے کی استعداد اور پیداواری قوتوں کو بڑھاکر اُسے کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ ورنہ پوسٹنگ اور ٹرانسفر یا پروموشن کے کیسوں کو کوئی بھی ہیڈ کلرک پایہ انجام تک پہنچاسکتا ہے۔بے محل نہ ہوگا اگر ریلوے کو پرائیویٹ کرنے یا جزوی طور پر اس کے آپریشن کو پرائیویٹائز کرنے کا ذکر کیا جائے۔ عرصہ ¿ دراز سے اس پر ٹامک ٹوئیاں ماری جارہی ہیں۔ لاہور،فیصل آباد سیکشن کو پرائیویٹائز کرنے کا تجربہ کوئی دور کی بات نہیں۔ کنٹریکٹر نے جس طرح ریلوے حکام کو ناکوں چنے چبوائے، سب کو معلوم ہے۔ ورلڈ بنک نے ریلوے کی نجکاری پر ایک نہایت عمدہ کتابچہ شائع کیا ہے، جس میں نجکاری سے گزرنے والے ریلوے اداروں کے تجربات بیان کئے گئے ہیں۔ اس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ریلوے نجکاری میں ناکامی کا سب سے اہم سبب ایک نامکمل اور غلط قسم کا معاہدہ ہوتا ہے، جس کے باعث ریلوے مزید خرابی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ریلوے کی جزوی نجکاری track access پالیسی کہلاتی ہے۔ اس میں ریلوے، ٹریک، سگنل اور ٹیلی کمیونی کیشن، سٹیشنوں وغیرہ کو ایک مطلوبہ معیار تک maintainکرنے کا پابند ہوتا ہے، اور ان کو استعمال کرنے کے عوض چارجز وصول کرتا ہے۔ اس کے عوض پرائیویٹ کمپنیاں اپنی کوچز، ویگنز اور لوکوموٹوز لاتی ہیں۔ چارجز کی شرح کا تعین (workout) کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے، اور ticklishبھی۔ پیچیدہ عمل اس لئے کہ ریلوے کے پاس کوئی costing expert نہیں اور ticklish اس لئے کہ پسنجر اور مال کے درمیان مشترکہ لاگت (joint costs) کو علیحدہ علیحدہ معلوم کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس کے علاوہ track access چارجز اگر زیادہ ہوں تو ممکن ہے کمپنیوں کے لئے قابل قبول نہ ہوں اور اگر کم ہوں تو ریلوے کے نقصانات میں مزید اضافہ ہوجائے۔ بزنس ٹرین کا حالیہ منصوبہ ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ معاہدہ کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی یہ مشکلات کا شکار ہوچکا تھا۔ریلوے نجکاری جب حکومتِ وقت کی ترجیحات میں شامل تھی، سویڈن کے خارجی امور کے سربراہ سیکریٹری ریلوے سے ملنے آئے۔ سیکرٹری صاحب نے ریلوے نجکاری کی پیشکش کردی۔ سویڈش بیوروکریٹ نے کہا کہ ہم نے اپنے یورپی ہمسایوں کے دیکھا دیکھی موٹرویز بناکر ریلوے کو نظر انداز کردیا۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ پرائیویٹ پارٹی اپنے مفاد حاصل کرکے ریلوے کو کھوکھا بناکر چھوڑ دے گی۔ بہتر ہے کہ اس کی پرائیویٹائزیشن کا کام چھوڑ کر اس کی بہتری کی طرف توجہ دی جائے۔پسنجر آپریشن دنیا کے کسی ملک میں بھی منافع بخش کاروبار نہیں۔ ریلویز مال گاڑیوں سے کماکر سسٹم کا نقصان کم کرتے ہیں، یعنی cross-subsidize کرتے ہیں۔ ریلوے نے 2006-07ءمیں 26.5 بلین پسنجر کلومیٹر حاصل کرکے ریلوے کی تاریخ میں ایک ریکارڈ تو قائم کردیا، لیکن مال (freight) کے شعبے میں اُس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ یہ ایک تجزیہ مانگتا ہے۔(جاری ہے)   ٭

مزید :

کالم -