وفاقی حکومت نے متحدہ کو منالیا ،کراچی آپریشن متاثر نہیں ہوگا
کراچی : تجزیہ نعیم الدین
آخر کاروفاقی حکومت نے متحدہ کو منا ہی لیا اور ایم کیو ایم نے پارلیمنٹ سے استعفیٰ واپس لینے کا اعلان کردیا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کراچی آپریشن پر اس فیصلے کے کیا اثرات پڑیں گے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔مولانا فضل الرحمن کی ابتدائی کوششیں متحدہ کو واپس لانے میں اپنا رنگ دکھا گئیں ۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دیر آید درست آید ۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی نہیں چاہتی تھی کہ متحدہ کے استعفیٰ منظور کیے جائیں ۔اس حوالے سے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بھی رولنگ دی تھی کہ اس طرح کی صورت حال میں استعفیٰ منظور نہیں کیے جاسکتے ان کی اس رولنگ میں پیپلزپارٹی کی پالیسی نظر آرہی تھی ۔مذاکرات کی کامیابی کو تمام سیاسی حلقوں نے سراہا ہے ۔ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان مذاکرات کی کامیابی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب جلد ہی سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں اور بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں تمام سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اپنا ہوم ورک شروع کردیا ہے ۔مختلف سیاسی رہنماؤں جن میں سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ،لیاقت علی جتوئی ،ذوالفقار مرزا ،سید ظفر علی شاہ کے علاوہ دیگر نے بلدیاتی انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور صوبائی الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور بتایا کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے 2013میں کی جانے والی دھاندلی کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ پی پی پی آئندہ بلدیاتی انتخابات میں پھر دھاندلی کرے گی اور سرکاری ذرائع کو بے دریغ استعمال کیا جائے گا جسے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ دھاندلی نہ کی جاسکے ۔اتنی بڑی تعداد میں سیاسی شخصیات کا الیکشن کمشنر سے ملاقات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ کوئی سیاسی اتحاد خود بخود وجود میںآرہا ہے اور پھر کسی بڑے سیاسی اتحاد کے اعلان کے بعد یہ تمام سیاست دان اس کا حصہ بن جائیں گے ۔جبکہ دوسری جانب لاہور کے حلقہ این اے 122کے ضمنی انتخاب میں کچھ وقت رہ گیا ہے اس نشست پر پورے ملک کے عوام کی توجہ مرکوز ہے کیونکہ دوبڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن جو کہ اس وقت حکمران جماعت بھی ہے جبکہ دوسری سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے ۔اس مقابلے میں کسی بھی ایک جماعت کی کامیابی سے سیاسی منظر نامہ ممکنہ طور پر تبدیل ہوسکتا ہے اور اگر پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو اس میں ایک نئی جان پیدا ہوجائے گی کیونکہ یہ حلقہ 30سال سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن)اس نشست پر مطمئن نظر آرہی ہے اور اسے اپنی جیت کا بھروسہ ہے جبکہ پی ٹی آئی سردھڑ کی بازی لگارہی ہے ۔بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں اس نشست پر ووٹرز کو گھر سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گی جس سے ووٹنگ کی شرح تاریخی ہوسکتی ہے ۔ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایاز صادق جو اس حلقے سے پہلے بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں انہوں نے اس حلقے میں عوامی مسائل کو حل کرانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔جبکہ علیم خان نے بھی لوگوں میں نئی امید پیدا کی ہے ۔